اپوزیشن آگے ‘ بی جے پی کی مسلسل شکست‘ ادتیہ ناتھ کا کیا مشکل وقت چل رہا ہے؟۔

لکھنو۔ غیر ہند ی ریاستوں جیسے تریپور ہ او رکرناٹک میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے وہ بی جے پی کی مرکزی قیادت میں شامل ہوگیاتھا۔ اترپردیش کے چیف منسٹر اپنے ہی گھر میں 2017کی غیر معمولی جیت کو دہرا سکیں گے یہ سوال پیدا ہورہا ہے۔

کیونکہ مارچ اور مئی کے درمیان جو وقت گذرا ہے جس میں اسکورچار صفر ہے اور یہ ان کے حق میں نہیں ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ شکست ریاست کے مشرقی او رمغربی دونوں حصوں میں ہوئی ہے۔

ریاست کے مغربی حصوں کو دوجوہات کی بناء پر بی جے پی کی فرقہ پرستی کے لئے تجربہ گاہ مانا جاتا ہے۔ ایک مسلم آبادیوں پر زیادہ توجہہ جس میں اس پولنگ کے وقت ردعمل کے طور پر ہندو علاقوں میں رائے دہی کی جاتی ہے اور مذکورہ 2013کے مظفر نگر فسادات جس کے بعد شدید طور پر مسلم او رجاٹ تقسیم ہوگئے تھے ‘ یہ وہ طبقات ہیں جنھیں چودھری چرن سنگھ نے متحد کیاتھا۔

علاقے کے سب سے بڑے جاٹ لیڈر نے طبقہ واری اساس پر سماجی اتحاد قائم کیاتھا جس کو ماج گار ( مسلم ‘ اہیر‘ جاٹ‘ گجر‘ او رراجپوت) کہاجاتاتھا تاکہ اعلی ذات والو ں کی اجارہ داری کا مقابلہ کیاجاسکے۔

ان کے بیٹے اجیت سنگھ اور پوتری جیانت سنگھ نے منقسم طبقات کو کیرانہ کی جیت سے متحد کردیا ہے ‘ جس میں متحد ہونے کی گنجائش باقی تھی۔میرٹھ کے دلت جہدکارڈاکٹر ستیش پرکاش نے کہاکہ بی جے پی اور یوگی ادتیہ ناتھ کے ہندو جذبات کو بھڑکانے کی کوششوں کے باوجود جاٹ اور کچھ گجر نے راشٹریہ لوک دل کے مسلم امیدوار کو ووٹ دیاہے۔

انہوں نے مزیدکہاکہ’’ جاٹ طبقے نے محسوس کیاہے کہ بی جے پی کو22ایم پیز دینے کے بعد لوک سبھا میں وہ نمائندگی سے محروم ہوگئے۔ جس کے سبب وہ بی جے پی کی جانب سے بھڑکائے جانے والی فرقہ وارانہ جذبات سے بے اثر رہے۔

ریاست میں 2017کے اسمبلی انتخابات ہونے تک بھی ‘ ادتیہ ناتھ اور ان کی ہندو یوا واہانی ( ایچ وائی یو) نے مشرقی اترپردیش کو بی جے پی کا مضبوط قلعہ بنانے کی پوری کوشش کرتے رہے ۔

ان کی اس کوشش کا معاوضہ بھی انہیں چیف منسٹر کے عہدے کے ساتھ ملا۔ایک مرتبہ ادتیہ ناتھ کو آر ایس ایس کی پسند کہنے پر بی جے پی صدر امیت شاہ نے کہاتھا کہ وہ ’’ وہ بی جے پی کی پسند ہیں۔ ریاست کے 48لیڈروں سے مشاورت کے بعد ان کے نام کو قطعیت دی گئی ہے‘‘۔

اب ادتیہ ناتھ دباؤ میں ہیں۔ مارچ میں گورکھپور کے ضمنی الیکشن میں وہ چیف منسٹر بننے کے بعد اپنے ہی گھر میں شکست فاش ہوئے۔

اب انہیں بی جے پی کے مضبوط قلعہ میں شکست کاسامنا کرنا پڑا ہے وہیں جہاں پر ’’ جناح او رگنا‘‘ کا نعرہ لگایا تھا جس میں کئی لوگوں نے لوگوں نے علاقائی معاملے پر توجہہ مرکوز کی اور گنا کے کسانوں کی مفاد کا انتخاب کیا۔

ادتیہ ناتھ کے مشیرمرتیونجے سنگھ نے وہیں اس بات کااعتراف کیاہے کہ گنے کے لئے فنڈز کی حسب ضرورت اجرائی میں حکومت ناکام رہی ہے او راسبات پر زوردیا کہ ضمنی انتخابات ادتیہ ناتھ کی حکومت کے لئے ریفرنڈم نہیں ہے ۔

سچائی یہ ہے کہ مارچ او رمئی کے درمیان جو پانچ انتخابات ہوئے ہیں ان میں بی جے پی کے ووٹ میں کمی نہیں ہے ‘ جبکہ بی جے پی کی شکست کی وجہہ اپوزیشن کا اتحاد ہے۔

جانکاروں کا کہنا ہے کہ کچھ ماہ بعد ادتیہ ناتھ اپنی کابینہ میں ردوبدل کریں گے اور ہوسکتا ہے انہیں اس سے آگے جانے کی بھی منظوری مل جائے گی۔

تجزنگاروں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیاہے کہ پارٹی کے اندر چیف منسٹر او رڈپٹی چیف منسٹر کیشو پرساد موریہ کے درمیان میں طویل عرصہ سے چل رہی نااتفاقیاں بھی اس کی وجہہ ہوسکتی ہیں۔

آر ایس ایس کے سینئر لیڈر چندرا موہن نے کہاکہ ’’ پارٹی کے اندرکیرانہ کی شکست کے اسرار ورموز کا جائزہ لینے کے بعد اعلی کمان حکمت عملی اور درکار تبدیلیوں کو روبعمل لائے گی‘‘۔

نتائج کو یوگی کی مقبولیت میں کمی سے جوڑنے کا انکار کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ 47ڈگری کی گرمی میں بھی یوگی کے جلوسوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کا جمع ہونے خود اس بات کا ثبوت ہے۔امیدوار کی کامیابی کا نتیجہ دراصل اپوزیشن کی جانب سے تیار کردہ سماجی اتحاد ہے۔

اپنی شناخت پوشید ہ رکھنے کی شرط پر ایک سرکاری عہدیدار نے کہاکہ ’’ انتخابات میں عوامی خیالات کے ذریعہ ہی جیت حاصل کی جاسکتی ہے‘‘۔

حکومت کے متعلق عوامی رائے تبدیل کرنے اب ادتیہ ناتھ کی ذمہ داری ہے۔ اترپردیش بی جے پی کے 2019میں ایک بڑا کھیل ثابت ہوگا۔