لاہور۔ایک سال قبل جس طرح قومی اسمبلی حلقہ جات میں ضمنی انتخابات کے وقت ہوا تھاٹھیک اسی طرح مذہبی پارٹیاں او رگروپس 25جولائی کے عام انتخابات میں بھی اپنی موجودگی ثابت کرنے میں پوری طرح ناکام رہے ہیں۔
ابھرتی ہوئے دنوں مذہبی ادارے خادم رضوی کی زیرقیادت تحریل لبیک پاکستان( ٹی ایل پی) اور کشمیر جہاد کے لئے مشہور حافظ سعید کے سیاسی محاذ ملی مسلم لیگ( ایم ایم ایل) نہ تو تمام 14قومی اور پنجاب اسمبلی کی30سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑا کرسکے
۔متحدہ مجلس عمل ( ایم ایم اے) جو پانچ سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل ہے جس نے 2002-07تک خیبرپختون پر حکومت کی تھی نے بھی تما حلقوں کا احاطہ کرنے میں ناکام رہی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انتہا ئی دائیں بازو کے ٹی ایل پی نے دو خاتون امیدوار قومی اسمبلی کے لئے کھڑا کئے تھے او ریہ دونوں سمیرہ نورین او رمیمونہ حامد پوری انتخابی مہم کے دوران ایک مرتبہ بھی عوام کے سامنے ووٹ مانگنے کے لئے نہیں ائے۔
اپنے الیکشن کے لئے ختم نبوت کے معاملے کا استعمال کرتے ہوئے مذکورہ تنظیم نے کسی طرح رائے دہندو ں کو این اے 135(لاہور تیرہ) ‘ این اے 125( لاہور سوم)او راین اے 132( لاہور دس)کو راغب کروانے میں کامیاب رہے مگر وہ پی ایم ایل ۔ ن کے راست ووٹرس کو اپنی طرف راغب کروانے میں پوری طرح ناکام رہے۔
ٹی ایل پی او رایم ایم ایل کی زیادہ تر موجودگی صرف بیانرس او رپوسٹرس پر دیکھائی دی کیونکہ ان کے پولنگ کیمپ او رپولنگ ایجنٹ دونوں ہی پولیس اسٹیشن کے ارد گرد ہی دستیاب تھے۔
ستمبر2016میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیمار اہلیہ بیگم کلثوم کے این اے120ضمنی الیکشن کے وقت دونوں ٹی ایل پی او رایم ایم ایل کافی سرگرم دیکھائی دے رہے تھے اور 7سے 5ہزار ووٹ بھی حاصل کئے تھے ۔
مگر ان کا وہ رحجان اس عام انتخابات میں کہیں پر بھی دیکھائی نہیں دیا۔ٹی ایل پی کے ایک لیڈر جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ اس بات کوقبول کیاہے کہ ضمنی الیکشن میں مقابلہ کرنا اور عام الیکشن میں حصہ لینا دونوں میں بڑا فرق ہے۔
انہو ں نے کہاکہ ’’ ضمنی الیکشن میں سارے ملک کو ایک اسمبلی حلقہ میں جمع کراسکتے ہیں مگر جنرل الیکشن آپ کی تمام طاقت اور وسائل ملک میں چاروں طرف پھیل جاتے ہیں‘‘۔
انہوں نے کہاکہ جماعت علماء پاکستان( جے یو پی) کے موسمی سیاست دانوں نے مشورہ دیاتھا کہ کسی ایک بڑے سیاسی جماعت سے اتحاد کرتے ہوئے محدود سیٹوں پر توجہہ مرکوز کریں مگر ٹی ایل پی کی مرکزی قیادت میں سے کچھ نے اس تجویز کو درکنا کرتے ہوئے ختم نبوت کے نعرے کے نام پر عام لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل ہونے کی بات کہی تھی۔
مہناج یونیورسٹی کے پولنگ کیمپ میں ٹی ایل پی کے لئے لوگوں کو لانے والے غلام مصطفےٰ نے کہاکہ مدرسوں سے ملنے والی حمایت غیرمعمولی تھی اور امیدکی جارہی تھی کہ وہ بہت جلد ایک طاقت بن جائیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ایم ایم ایل کاحال تو اس سے برا رہا ۔
اس نے جہا ں قومی اسمبلی14کے لاہور سے سیٹوں پر چار امیدوار کھڑا کئے تھے وہاں پر ایک کے کیمپ سارا دن خالی رہے۔ ایسا لگ رہاتھا کہ لوگوں نے ان کی ملحقہ تنظیم کی جانب سے کئے جانے والے فلاحی کاموں کے تمام دعوؤں کو لوگوں نے مستر د کردیا۔
ایم ایم اے کے بھی وہی حالا ت رہے جس نے لیاقت بلوچ ( این اے 130) او رمنصور حسین گجر( این اے 128)سے توقع کی تھی وہاں پر بھی مخالفین سے پبلسٹی میں کوئی مقابلہ نہیں دیکھائی دیا۔