دولت اسلامیہ کوئی خلافت نہیں بلکہ مجرموں کا گروپ ، جنگ میں فتح کی امید
واشنگٹن ۔ 26 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) پانچ برس سے خانہ جنگی کا شکار ملک شام میں دو ہفتے کی جنگ بندی کے آغاز سے قبل امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ آنے والے ہفتے ملک کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ جنگ بندی کا یہ معاہدہ 27 فروری کی شب 12 بجے سے نافذ العمل ہوگا تاہم اس کا اطلاق دولت اسلامیہ، القاعدہ اور اس منسلک النصرہ فرنٹ کے خلاف کارروائیوں پر نہیں ہوگا۔ صدر اوباما نے روس کو خبردار کیا ہے کہ شام میں جنگی اقدامات اور کارروائیاں روکنے پر متفق ہونے تمام فریقوں کو حملے روکنے ہوں گے۔ بارک اوباما کا کہنا ہے کہ اگر یہ جنگ بندی کامیاب رہتی ہے تو یہ شام سے افراتفری اور تشدد کے خاتمے کی جانب پہلا ٹھوس قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ امریکی صدر نے ساتھ ہی ساتھ شام اور عراق میں سرگرم شدت پسند گروپ دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے کا عزم بھی دوہرایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دولتِ اسلامیہ کوئی خلافت نہیں بلکہ مجرموں کا ایک گروپ ہے جسے شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ شام میں جاری بحران کا خاتمہ ہو۔ بارک اوباما نے کہا کہ شام میں جنگ بندی کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ فریقین بشمول شامی حکومت، روس اور اس کے اتحادی بھی اپنے وعدوں کی پاسداری کریں۔ انھوں نے کہا کہ آنے والے دن بہت اہم ہیں اور دنیا کی نظریں ان پر لگی ہوں گی۔ امریکی صدر بارک اوباما نے اپنی سکیورٹی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ داعش کو تمام محاذوں پر شکست سے دوچار کرنے کے لیے امریکہ کی قیادت میں مہم کو آگے بڑھائے۔ انھوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا ہے کہ شام میں مجوزہ جنگ بندی سے تنازعہ کے سیاسی حل کی راہ ہموار ہوگی اور داعش کے خلاف جنگ پر توجہ مرکوز کی جاسکے گی۔ انھوں نے اس رائے کا اظہار امریکی محکمہ خارجہ میں اعلیٰ سطح کے ایک اجلاس میں کیا ہے۔صدر اوباما کو ان کے قومی سلامتی کے مشیروں نے داعش کے خلاف جنگ اور شام میں قیام امن کے ضمن میں کوششوں کے حوالے سے آگاہ کیا ہے۔
ان کے ساتھ اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری ،وزیردفاع ایشٹن کارٹر ،اٹارنی جنرل لوریٹا لینچ اور دوسرے مشیر موجود تھے۔ انھوں نے کہاکہ میں نے اپنی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ اس مہم کو تمام محاذوں پر تیز کیا جائے۔اب ہم خیال ممالک آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ داعش کو شکست دینے کے لیے مزید امداد کی پیشکش کررہے ہیں۔ صدر اوباما کا کہنا تھا کہ گذشتہ موسم گرما کے بعد سے داعش نے شام یا عراق میں کوئی ایک بھی بڑی کارروائی نہیں کی ہے۔شام کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ ہفتے کے روز سے ہونے والی شام میں جنگ بندی سے یہ توقع نہیں کرتے کہ اس سے فوری طور پر خونریزی اور جنگی کارروائیاں رک جائیں گی۔امریکی صدر نے کہا کہ یہ جنگ بندی متحارب فریقوں کے لیے ایک امتحان ہے کہ آیا وہ ملک میں سیاسی انتقال اقتدار ،آزادانہ انتخابات کے انعقاد اور ایک نئے آئین کے لیے پْرعزم ہیں یا نہیں۔انھوں نے واضح کیا کہ شام کے مستقبل میں بشارالاسد کی بطور صدر کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔