اِسلام سے زیادہ مساوات کسی بھی مذہب میں نہیں ، لبرل خواتین ہندوتوا کا مہرہ

آج تک سنگھ کی سرسنچالک اور چار مٹھوں کی شنکر آچاریہ کسی خاتون کو کیوں نہیں بنایا گیا :مولانا حمید نعمانی

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا …

مسلمان اب تک عشرت جہاں کا رونا رہے تھے، اب رونے کیلئے ایک جمیدا بھی آگئی ہیں۔ جمیدا کہنا شاید توہین ہو ’’جمیدا امام صاحبہ‘‘ کہنا چاہئے۔ جی ہاں بات کیرلا کی خاتون امام کی ہورہی ہے جن کی تصویریں بی جے پی کے بیانر میں خوب چمک رہی ہیں۔ عشرت جہاں نے طلاق ثلاثہ کا معاملہ اٹھایا تھا اور بی جے پی کی گود میں جا بیٹھی، اب جمیدا کا دامن بی جے پی نے تھاما اور اسے بھگوا رنگ میں رنگ دیا۔ اس نے بھگوا رنگ کی اوڑھنی پہن رکھی ہے۔ اسی بھگوا دوپٹے میں اس نے نماز پڑھائی تھی۔ ملک میں ان دنوں کیرلا میں خواتین کے ذریعہ جمعہ کی نماز ادا کئے جانے کو لے کر ہنگامہ جاری ہے۔ علمائے کرام اسے ’’غیراسلامی‘‘ قرار دے رہے ہیں اور واقعی یہ عمل ’’غیراسلامی‘‘ ہے۔ اسلام سے زیادہ مساوات کسی بھی مذہب میں نہیں ہے۔ لیکن لبرل اور کم علم رکھنے والی خواتین نام نہاد مساوات کا علم بلند کرکے اسلام کے آفاقی پیغام مساوات کو سمجھ نہیں پارہی ہیں اور دانستہ و نادانستہ طور پر فرقہ پرستوں کے جال میں پھنس کر اسلام کا مذاق اُڑا رہی ہیں۔ نماز جمعہ پڑھانے والی خاتون ملاپورم جمعیتہ قرآن سنت سوسائٹی کی صدر ہے۔ اس کا نام جمیدا بتایا جارہا ہے۔ وہ پیشے سے ٹیچر ہے۔ جمعہ کی نماز پڑھانے کے بعد اسے دھمکیاں مل رہی ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ میں مردوں کے ذریعہ بنائی گئی تمام روایات کو توڑنا چاہتی ہوں۔ اسلام میں کہیں نہیں لکھا ہے کہ صرف مرد ہی جمعہ کی نماز پڑھا سکتے ہیں۔ جمیدا کا کہنا ہے کہ نماز، حج، زکوۃ، روزہ جیسی سبھی مذہبی عبادات میں عورتوں کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کیا گیا۔ اس نماز جمعہ کو لے کر ڈیبٹ کیا جارہا ہے اور عورتوں کے حقوق کے لئے فرقہ پرست اسلام پر بیجا اعتراضات کررہے ہیں۔ کل مولانا حمید نعمانی نے کہا کہ ’’میں نے کہا کہ امامت جمعہ کا، مرد و عورت کے مساوی حقوق سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ الگ الگ دائرہ کار سے ہے۔ عورت پر جماعت ضروری ہے اور نہ جمعہ ایسے عبادت سے روکا جاتا تو بھید بھاؤ کی بات کہی جاسکتی تھی۔ اسلامی شریعت میں متبادل کے ساتھ پورا حق دیا گیا ہے۔ آپ لوگ اسلامی شریعت کے معاملے میں سوال کرنے اور سمجھنے کی بات کرسکتے ہیں۔ ہم جواب دیں گے، لیکن ہمیں بھی ایک آزاد جمہوری ملک میں اس کا موقع اور حق ملنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہم نے سوال کیا کہ آج تک سنگھ کی سرسنچالک کوئی خاتون کیں نہیں بنائی گئی۔ چاروں مسلمہ مٹھوں کی شنکر آچاریہ کوئی خاتون کیوں نہیں بنائی گئی؟ اس سے اینکر کے ساتھ، سنگھ، بی جے پی کے نمائندے کچھ گھبرا سے گئے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے نمائندے بھی کہنے لگے کہ ہم کیوں کہیں کہ خاتون شنکر اچاریہ کیوں نہیں ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ نامعقول بات ہے۔ جب وہ اسلامی شریعت اور مسلم سماج کے متعلق سوال اٹھا سکتے ہیں اور بحث کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ہندوتوا کے متعلق سوال اٹھا سکتے ہیں؟ مشترکہ آبادی میں ایک دوسرے کو سمجھنے کیلئے معقول سوال اٹھانا کیسے مناسب نہیں ہے؟ طلاق ثلاثہ معاملہ میں جتنی بھی خواتین میڈیا کے سامنے آئیں، سبھی میں جھول تھا، سبھی کچھ پیسوں کے لالچ میں موجودہ حکومت کے اشارے پر ناچتی پھر رہی ہیں اور میڈیا اسے دکھا رہا ہے کہ مودی حکومت مسلمانوں کی ہمدرد ہے اور اسلام عورتوں پر ظلم کرتا ہے۔ احمدآباد میں لاکھوں کی تعداد میں خواتین نے سڑکوں پر آکر بل کی مخالفت کی ، لیکن حکومت اور میڈیا کو کچھ نظر نہیں آیا۔ گزشتہ اتوار کو مونگیر (بہار) میں بھی ایک لاکھ مسلم خواتین نے کہا کہ یہ ہمارا شرعی معاملہ ہے، اس میں مداخلت نہ کی جائے لیکن یہ خبر بھی حکومت کو نظر آئی نہ ہی میڈیا نے اسے کوریج دیا۔