جاوید اختر کے جملے جس میں انہوں نے کہاکہ ’’ محبت کی جو شدت ہے وہ موقف کو ظاہر کرتی ہے ۔ محبت اس جگہ پہنچ جاتی ہے جس کو ہم عشق کہتے وہ صبر کا ایسا لمحہ ہے کہ جہاں پر تمام رشتے ‘ قومیت اور سب کچھ ہیچ ہوجاتی ہے اور سامنے جو شخص ہے وہ عاشق کے لئے سب کچھ ہوجاتا ہے مگر سماج کو یہ بات پسند نہیں ہے ‘‘۔جاوید اختر کے اس تبصرے پر دی وائیر کی اینکر نوپور شرما نے اُردو والا چشمہ کے بیسویں ایپسوٹ میں کچھ اس طرح خلاصہ کیاہے کہ ’’ تو پھرسماج کو کیاپسند ہے
۔سماج چاہتا ہے کہ آپ زندگی کا کھیل‘ عشق کی بازی ان کے بنائے قوانین کے تحت کھیلیں۔کے بھائی یہ دائرے ہے اور یہ حدود ہیں جس کے مطابق تم اپنی انسانی حسرتیں پوری کرو‘ ہم نے یہ جو دیواریں بنارکھی ہیں انہیں مت توڑو۔اگر کوئی انسان محبت کے سب سے معتبر مقام عشق تک جائے اور اسی یہ بندشیں بے معنی ٰ لگیں تو ہمارا سماج اسی برداشت نہیں کریگا۔پیا ر عشق ومحبت سے معاشرہ خوف زدہ اور محتاط ہوگیاہے ۔
کسی بھی مذہب کے ماننے والے لوگوں کی اکثریت یہ ہر گز نہیں چاہے گی کہ ان کی بیٹی کسی دوسرے مذہب کے لڑکے سے ساتھ عشق کرے اور اس کے ساتھ شادی کرلے ۔
ایسا ہی حال لڑکوں کے ساتھ بھی ہے مگر معاشرے کسی بھی لڑکی کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دیگا بالخصوص وہ ماں چاہئے وہ ہندو یا پھر مسلمان ہی کیوں نہ ہوں وہ ہر گز نہیں چاہیں گے ان کی لڑکی کسی دوسرے مذہب کے لڑکے کے ساتھ شادی کرلے۔ہندوتوا پرست انسان کو مسلمان کی جان کی دشمن بنادیتا ہے جس نے کسی ہندو لڑکی سے محبت کی اور اس سے شادی کی ہے ۔
جاوید اختر کی ریت کا فصیلہ کا بھی حوالہ دیتے ہوئے لوجہاد کے نام پر ہندوتوا تنظیموں کی بڑھتی نفرت کا ذکر کیا کہ کس طرح مختلف طریقوں سے ہندوتوا کے نظریہ کو فروغ دینا کاکام کیاجارہا ہے جس کا مقصد سیاسی ہے اور کئی مرتبہ اس کام میں سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں برسرعام آکر بھی ہندوتوا کے علمبردار ہجوم کے ہاتھوں ہونے والے بے گناہ مسلمانوں کے قتل پر شاباشی دیتے ہیں توکبھی وہ پردے کے پیچھے سے کام کاانجام دیتے ہیں ۔تفصیلی ویڈیو کا ضرور مشاہدہ کریں