علاقائی سلامتی، دہشت گردی سے نمٹنے اور بڑے پیمانے پر نقل مقام بات چیت کا موضوع
واشنگٹن ۔ یکم ؍ اپریل (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر بارک اوباما نے آج اپنے ترک ہم منصب رجب طیب اردغان سے ایک ایسے وقت ملاقات کی جب پریس کی آزادی اور شام میں جاری جنگ کی وجہ سے کافی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ وائیٹ ہاؤس کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ دونوں صدور کی کوئی ملاقات مستقبل قریب میں طئے نہیں ہے جسے امریکہ کی جانب سے اردغان کے تئیں توہین آمیز رویہ سے تعبیر کیا جارہا تھا۔ تاہم اب یہ بیان دیا گیا ہیکہ نیوکلیئر سیکوریٹی اجلاس کے تناظر میں دونوں قائدین کی ملاقات ہوئی ہے اور دونوں نے علاقائی سیکوریٹی، دہشت گردی سے نمٹنے اور بڑی تعداد میں عوام کا نقل مقام کے موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیال بھی کیا تھا۔ البتہ اسے صدر سے صدر کی ملاقات نہیں کہا جاسکتا جبکہ شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں دونوں ممالک ناٹو کے حلیف ممالک ہیں لیکن ترکی نے جب کرد شورش پسندوں پر حملہ کیا تو ترکی اور امریکہ کے درمیان معمولی کشیدگی پیدا ہوگئی تھی کیونکہ کردوں کو امریکہ، شام اور عراق میں سرگرم دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں سے نمٹنے کا اہل سمجھتا ہے۔ دوسری طرف ترکی یہ استدلال پیش کرتا ہیکہ کرد باغی کردستان ورکرس پارٹی (PKK) جیسی قانون شکن جماعت سے وابستہ ہے جس نے کردوں کی آزادی کیلئے طویل جنگ لڑی تھی لیکن نتیجہ کچھ بھی برآمد نہیں ہوا۔ وائیٹ ہاؤس نے حالیہ دنوں میں ترکی میں آزادی اظہارخیال اور جمہوریت کو لاحق خطرات پر اپنے خیالات کا برملا اظہار کیا تھا جبکہ جمعرات کو اردغان کی تقریر کے دوران کچھ ناخوشگوار مناظر بھی دیکھنے میں آئے تھے جہاں ترکی میں پریس کی آزادی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا تھا۔ رجب طیب اردغان کی بروکنگس انسٹیٹیوٹ آمد سے قبل سیکوریٹی عہدیداروں کو وہاں موجود احتجاجیوں سے نمٹنے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ امریکی نیشنل پریس کلب نے اردغان پر الزام لگایا کہ وہ ترکی میں جاری ظلم و ستم کو یہاں امریکہ میں آزمانا چاہتے ہیں۔
ترکی کے گارڈس نے ایک امریکی رپورٹر کو لات بھی رسید کی تھی جو دراصل اس وقت ایک اپوزیشن ترکی رپورٹر کو ہراساں کئے جانے کے واقعہ کی فلمبندی کی کوشش کررہا تھا۔ دوسری طرف ایک خاتون خارجی پالیسی اسکالر کو ’’فاحشہ‘‘ کہا گیا تھا۔ اسے بھی ایک المیہ ہی کہنا چاہئے کہ جس وقت نیوکلیئر سیکوریٹی اجلاس میں شرکت کیلئے اردغان واشنگٹن پہنچے، خود ان کے وطن کے جنوب مشرقی علاقہ میں ایک طاقتور بم دھماکہ ہوا جو دراصل پولیس کو نشانہ بنانے کیلئے کیا گیا تھا۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں ترک افواج کردش شورش پسندوں سے نبردآزما ہے۔ وائیٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان کے مطابق اوباما نے ترکی میں ہوئے تازہ ترین حملہ میں ہلاک ہوجانے والوں کیلئے امریکی حکومت اور اور امریکی عوام کی جانب سے اردغان سے اظہارتعزیت کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اوباما نے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ترکی کے ساتھ امریکی تعاون کے ہمیشہ رہنے کا اعادہ بھی کیا اور کہاکہ آج دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جسے دہشت گردی کا کسی نہ کسی روپ میں سامنا نہ ہو۔ کچھ لوگ اپنے حساب سے دہشت گردوں سے نمٹ رہے ہیں۔ کچھ ممالک نے اس سلسلہ میں ایک گٹھ جوڑ تشکیل دیا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف کمربستہ ہوگئے ہیں۔ اوباما نے کل بھی امریکہ میں جاری صدارتی انتخابی مہمات پر اپنی ناپسندیدگی اور بے چینی کا اظہار کیا تھا کیونکہ یہ بات اب سب جان گئے ہیں کہ ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ جس نوعیت کی مہم چلا رہے ہیں وہ مستقبل میں امریکہ کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوگی۔