’ان لوگوں نے میرے انکل کو قتل کردیا میں اپنے جان بچانے کے لئے وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا‘: گجرات کے مسلمان گاؤں والے جن پر5ہزارکے طاقتور ہندو ہجوم نے حملہ کیا

مسلم اور ہندو بچوں کے درمیان کی چھوٹی جھڑپ بڑی تشدد میں تبدیل پٹن میں ہجوم کے ہاتھوں دو ہلاک اوردرجنوں گھر تباہ
احمدآباد:گجرات کے ضلع پٹن میں پیش ائے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد ناقابلِ تذکرہ کہانیاں سامنے آرہے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق چھوٹی سے جھڑپ کے بعد پیش ائے پرتشدد واقعہ میں دو لوگ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں مشرقی گجرات میں واداولی گاؤں کے پڑوس کے مرکزی مسلم محلے پر 5,000پر مشتمل ہجوم کے حملے میں ہلاک ابراہیم بیلم کے گھر کے باہر سینکڑوں سوگوار قطار میں کھڑے ہوئے ہیں۔

مسٹر بیلم جن کی عمر 50سال تھی کو چاقوسے حملہ کرکے ہلاک کردیاگیا ۔ چودھ دوسرے جو تمام مسلمان ہیں فساد میں بری طرح زخمی ہوئے ۔ درجنوں گھر اور گاڑیاں جلائی دی گئی ۔

دوگھنٹے کے تشدد میں کروڑ ہا روپئے مالیت کا ساز وسامان سڑکوں پر جلا دیاگیا۔مسٹر بیلم کے بھتیجے بابو بھائی اپنے چچا کے قتل کا عینی شاہد ہیں ۔ انہو ں نے کہاکہ حملہ آور پڑوسی کے اکثریت طبقے اثر والے گاؤں سنسار سے ائے تھے۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق متاثرہ شخص نے کہاکہ ’’ حملہ آوروں کے پاس دیسی ساختہ ریوالور ‘ تیز دھار ہتھیار موجود تھے‘ ان لوگوں نے میرے چچا پرحملہ کرنے شروع کردیا۔ ان کوقتل کرنے کے بعد وہ میرے پیچھے دوڑنے لگے‘ مگر اپنی جان بچانے کے لئے وہا ں سے بھاگ گیا‘‘۔واڈاوالی احمد آباد سے تقریبا120کیلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے‘ جہاں پر مسلمانوں او ردلتوں کی بڑی آبادی موجود ہے۔

مذکورہ فرقہ وارانہ تشدد ہندو اور مسلم اسٹوڈنٹس کے درمیان جھڑپ کے کچھ گھنٹوں کے اندر شروع ہوگیا۔وائیر کی رپورٹس کے مطابق نریندر بھائی وانکا ر جو کے چناسماں کے ایک مقامی اسکول میں ٹیچر ہے نے کہاکہ ’’ امتحان کے بعد دسویں جماعت کے طلبہ امتحان مرکز سے باہر ائے پھر ایک دربار لڑکی مسلم لڑکے سے ٹکرایا۔ دربار لڑکا اتفاقی طور پرسیڑھیوں سے نیچے گر گیا۔ یہ تمام واقعہ ہفتہ کے روزپیش آیا‘‘۔

جب اشرف بھائی شیخ نے ہفتہ کے روزبرہم ہجوم کو آتے دیکھا تو انہوں نے اپنے فیملی کولیکر گھر کے باہر نکل گئے جس کو ہجوم نے لوٹ کر نذر آتش کردیا۔ انہو ں کا دعوی ہے کہ پولیس نے کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی۔اشرف بھائی کا الزام ہے کہ ’’ ہجوم کے ساتھ پولیس کی گاڑیا بھی موجود تھے مگر ان کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی‘ جبکہ وہ لوگ نعرے لگارہے تھے کہ ان لوگوں کوقتل کردیں گے‘‘۔

ایک شکایت (منہر سنہہ زیلہ نے درج کروائی) جس میں کہاگیا کہ واڈا والی کے ایک مسلم لڑکے نے سنسار کی ایک لڑکی کو ’’ دھکا‘‘ دیا جس کے نتیجے میں ہندو اور مسلم اسکول اسٹوڈنٹس کے درمیان جھگڑا ہوا اور یہ تشدد کی وجہہ بنا‘ اور دوسری شکایت( رحمن بھائی علی بھائی مالک نے درج کروائی)جس میں ٹھاکر کو ملزم ٹھرایا گیا۔ اب تک اس معاملے میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں ائی۔

ایف ائی آر میں درج 14ناموں میں13ویں نمبر پر ابراہیم خان کا نام بطور ملزم ہے جو زیلہ کی شکایت کے مطابق درج کیاگیا ہے۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق امجد نے کہاکہ ’’ امجد بلیم عمر 19سال جب کھیت سے اپنے بھائی عمران( 21)کے ساتھ گھر دوپہر کے کھانے کے لئے گھر ائے‘ جب انہو ں نے پڑوسی گاؤں سنسار سے نوجوانوں کا ایک ہجوم ان کے گاؤں کی طرف ’’ ہم تمام مسلمانو ں کو قتل کردیں ‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے آتا سنا۔ مگر ہمارے گاؤں کے بڑوں نے خاموش رہنے کو کہاوہ واپس چلے گئے‘‘۔

ان تین گروپوں میں سے پہلا برہم گروپ تھا‘ جس میں سنسار کے ٹھاکر شامل تھے ‘ جو اسکول حادثے کے پیش نظر واڈاوالی کے واگجی پاڑہ پہنچے جہاں پر 1500کے قریب مسلم آبادی والی کالونی ہے ۔ عمران کے کہاکہ ’’ بمشکل آدھا گھنٹے کے وقفہ گذر ہوگا کہ سنسار سے 5000لوگوں پر مشتمل ہتھیار بند ہجوم کاآنا شروع ہوا‘ ہم پہلے سے ہی چوکنا تھا‘ ہم نے عورتوں او ربچوں کو واڈاوالی گاؤں کی مسجد میں چھپا دیا۔ صرف 15-16مرد اپنے مویشیوں او رسامان کی حفاظت کے لئے رہ گئے‘‘۔

جب تیسری مرتبہ ہجوم یہاں پہنچاابراہیم خان اپنے دوبچوں اور بھتیجے کے ساتھ پہلی منزل پر اپنے بھائی کے مکان میں چھپ گیااور باہر سے دروازہ مقفل کرلیا۔امجد نے کہاکہ’’ وہ اخری مرتبہ تھا جب میں نے اپنے والدکو زندہ دیکھا ۔ انہوں نے ہمیں کہاکہ وہ ہجوم گیا یا نہیں دیکھ کر آتا ہوں اور ہمیں ہدایت دی کہ ہم لوگ باہر نہیں نکلیں ‘‘ اسی کے ساتھ امجد رونے لگا۔امجد نے کہاکہ چار سے پانچ مرتبہ گولیاں چلنے کی میں نے آواز سنی۔

گاڑیاں جلائی جارہی تھیں او رلوگ مدد کے لئے آوازیں لگا رہے تھے۔امجد نے جو ائی ٹی ائی کا کورسس کررہا نے کہاکہ ’’ اچانک ہم لوگوں نے ہجوم کی آوازیں سنی جو باہر سے وحشیانہ انداز میں دروازہ تو ڑ کر اندر داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا۔ ہم لوگوں نے اندر سے بھی دروازے کو مقفل کردیاتھا۔ جلد ہی پولیس موقع پر پہنچ گئی اور ہجوم کو منتشر کردیا۔ ایسا نہیں ہوتا وہ ہمیں بھی وہ لوگ ماردیتے‘‘۔ بحفاظت دونوں کو گاؤں کی مسجد میں چھاپہ دیاگیا ‘ امجد اور اس کے رشتہ کے بھائی کو ابراہیم خان اور دیگر گاؤں والے جو باہر تھے کے ساتھ کیاحادثہ پیش آیااس کی تک خبر نہیں تھی۔

صرف ہفتے کے رات کو پولیس نے اس بات کی اطلاع دی کی ابراہیم خان ہلاک ہوگئے ہیں۔مگر پولیس کا کہنا ہے کہ یہ سب غلط ہے‘ پولیس افیسر نے کہاکے 14لوگوں کو قتل او رآتش زنی کے الزامات کے تحت گرفتار کیاگیا ہے ‘ پولیس کو مزید50مشتبہ افرا دکی تلاش ہے جنھیں گرفتار کیاجائے گا۔

علاقے کے سینئر پولیس عہدیدار پر تھا راج سنہا گوہل نے کہاکہ ’’ جیسے ہی ہمیں اطلاع ملے ایک ہجوم گاؤں کی طرف جارہا ہے تب ہم حرکت میں اگئی او رالزمات کے برعکس ہمارا فوری ردعمل مزید اموات کی روک تھام کا سبب بنا‘‘۔ سنسار جہاں سے ہجوم کی آمد ہوئی کے ساکن ایک ہندوشخص نے اس دعوے کے ساتھ پولیس میں شکایت درج کروائی کہ جوان لڑکی کے ساتھ مسلم طالب علم نے چھیڑ چھاڑ کی تھی۔

تشددسے ایک دن قبل ہی واڈاوالی کے تقریبا2000خاندان مقامی کونسل یعنی پنچایت کے انتخاب کے لئے جمع ہوئے تھے جو سمراس اسکیم کے تحت بناء کسی الیکشن کے عوامی رائے سے منعقد کیاجاتا ہے۔

مذکورہ اسکیم نریندر مودی کی متعارف کردہ ہے جب وہ گجرات کے چیف منسٹر تھے۔ گاؤں کے 300مسلم خاندان جو اس گاؤں کا حصہ ہیں نے فیصلہ سرپنچ کونسل کی صدارت کو ہندو اورمسلمان کے درمیان میں تقسیم کردیاجائے۔

سبکدوش ہونے والے سرپنچ منیش پٹیل نے کہاکہ ’’ گاؤں والے یہاں پر اتفاق کے ساتھ رہتے ہیں‘ سلیم بھائی کو اگلے دو تا ڈھائی سال کے لئے سرپنچ مقرر کیاگیا ہے اور یہ فیصلہ اکثریتی طبقے کے ممبران کی جانب سے کیاگیاہے۔