ہمارے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ ہی کی طرح امریکہ کے سابق صدر بارک اوبامہ بھی ایک ایسے دانشوار ہیں جن کااحترام ساری دنیاکرتی ہے ۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ چند افراد انہیں ایک ناکام لیڈر سمجھتے ہیں۔ چند لوگوں کا خیال ہے کہ من موہن سنگھ پر پارٹی کا غلبہ تھا اور وہ کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے جبکہ کئی افراد کا کہنا ہے کہ بارک اوبامہ کا تعلق ایک نسلی اقلیت سے ہے۔اہم بات یہ ہے کہ دونوں بھی شخصیات ذہانت کی مثال ہیں۔ دنیا کے باقی لیڈروں کی طرح و ہ تقاریر نہیں کرتے لیکن جب وہ بات کرتے ہیں تو ان کی باتوں کو نظر انداز کرنا مشکل ہوتا ہے۔
چند دن قبل بارک اوباما نے برطانیہ کے شہزادہ ہیری کو ایک انٹرویو دیا ۔ اپنے انٹریو میں انہوں نے سوشیل میڈیا او رجدید معاشرے پر اس کے مضراثرات کے بارے میں گفتگو کی۔ اوبامہ نے یہ قبول کیا سوشیل میڈیا مشترک دلچسپیوں کے لوگوں کے لئے ایک دوسرے کو جاننے اور رابطے کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ یہ کہنے کے بعد انہوں نے مزیدکہاکہ ’’ لیکن آن لائن ملنے کے بعد لوگوں کا آف لائن ملنا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ وہ پھرہوٹل ‘ عبادت گاہوں اور پارک وغیر میں ملنے لگتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کی پسند نا پسند اور شخصیات کو اچھی طرح جان سکیں گے‘‘۔
اوبامہ نے دوسری اہم بات یہ کہی کہ انٹرنٹ ہر ہم دوسرے شخص ک نقطہ نظر کو ایک حد تک قبول کرتے ہیں جب وہ حد سے تجاوز کرنے لگتا ہے تو ہم اسے ’ بلاک ‘ کردیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی دوسرے شخص کا نظریہ زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرتے۔ لیکن حقیقت میں ہمیں دوسروں کا نظریہ سننا لازمی ہوت ہے اور اپنے تعصب کو کبھی کسی حد تک چھپانا ہوتا ہے۔ اوبامہ نے جو باتیں بتائی ہیں ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ جو سماجی طور پر سرگرم کارکن اور سیاست داں اپنے کام کے ذریعہ تبدیلی لانے کی کوشش کررہے ہیں ‘ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ انٹرنٹ کے بجائے لوگوں سے براہ راست ملاقات کریں۔ چند ہفتوں پہلے جگنیش میوانی میرے دفتر ائے تھے ۔ یہاں میں نے ان کے نظریات اور ان کے مستقبل کے مقاصد جاننے کی کوشش کی ۔
انتخابی سیاست کے بارے میں پوچھنے پر انہوں نے کہاکہ میں اس میدان میں کم وقت کے لئے نہیں آیاہوں لیکن مجھے معلوم ہے کہ مجھے 15سال یا اس سے زائد عرصہ کے بعد کامیابی ملے گی۔ تاہم انتخابات کے نتائج آنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ جگنیش میوانی کو اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے وہ آسانی کے ساتھ جیت جائیں گے۔یہ کس طرح ممکن ہوا‘ خاص طور پر ایسی ریاست جہاں 2ہی سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے خلاف محاذ آرائی کررہی تھیں‘ ان کے پا س کوئی انتخابی نشان بھی نہیں تھا‘ کیاانہوں نے یہ انتخابات اپنے اعتماد سے جیتا؟۔میرے خیال میں میوانی ایک ذہن اوراچھے مقرر ہیں انہوں نے ریاست کے ہزاروں لوگوں سے بالمشافہ ملاقات کی ہے۔
اسی طرح میرے جیسے انسانی حقوق کے کارکن کے لئے یہ ضروری ہے ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ساتھ گزاریں۔ میںیہ خاص طور پراس لئے کہہ رہا ہوں کہ ک فعال دنیا میں لوگوں کی توجہ سوشیل میڈیا پر ہوتی ہے کیونکہ یہ بڑی تعداد تک پہنچنے کا سب سے موثر طریقہ ہے۔ لیکن اس کے ذریعہ جیسا کہ اوباما نے کہاہے کہ ‘ فرقہ وارانہ مصف بندی کی جاتی ہے اور لوگوں کے ذہنوں کو آلودہ کیاجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اقلیتی جماعتوں جیسے مسلمانوں‘ دلتوں قبائیلیوں ‘ کشمیریوں یا شمالی مشرق کے لوگو ں کے حقوق کے لئے کام کررہاہے تواسے کہاجاتا ہے کہ شہریوں کے حقوق سے زیادہ اہم فوج او رحکومت کے حقوق ہیں۔اسی طرح انسانی حقوق پر حکومت کے حقوق کو فوقیت دی جاتی ہے۔ ان کا جھوٹی باتوں کو انٹرنٹ کے ذریعے آسانی سے پھیلاجارہا ہے ۔
بالمشافہ ملاقات میں کسی شخص کے نظریے کو مستر د کرنا آسان نہیں ہوتا۔ آخر میں اوبامہ نے کہاہے کہ ہمیں کبھی امید نہیں چھوڑنی چاہئے۔ اوبامہ یہ نہیں کہنا چاہتے تھے کہ سوشیل میڈیا ایک بری چیز ہے۔انہوں نے کہاکہ’’ سوال یہ ہے کہ ہم اس ٹکنالوجی کو کس طرح استعمال کریں کہ یہاں ہر شخص کی آواز سنائی دے ‘ ہر شخص کا نظریہ واضح ہو‘ لیکن اس سے معاشرے کی تقسیم نہ ہو اور ہمیں سوشیل میڈیا اس بات کی اجازت دے کہ ہم سب ایک مشترکہ نظریہ پر قائم ہوسکیں۔‘‘