ملیشیاء کے متوقع وزیراعظم انور ابراہیم نے کہاکہ کشمیر مسلئے کاخوف دلانا دہلی کوبات کرنے سے کبھی نہیں روک سکتا۔
نئی دہلی۔انور ابراہیم پچھلے تین دہوں سے ملیشیا ء کے وزیراعظم کی دوڑ میں رہنے والے سیاست داں ہیں۔ اس وقت وہ مہاتر محمد کے 1990کے دہے میں نائب وزیراعظم بنے تھے اور ایشیاء کے سب سے بڑے معاشی بحران کے دورا ن ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی‘ سیاسی منشاء کے تحت انہیں بعد میں جیل بھیج دیاگیا تھا ‘
اور پھر ایک مرتبہ وہ وزیراعظم کے عہدہ کی دوڑ میں آگئے ہیں۔ملک میں پانچ روزہ دورے کے موقع پر برسراقتدار پی کے آر پارٹی کے لیڈر کا یہ بھروسہ ہے کہ’’ ہندوستان میں حالیہ مذہبی شدت پسندی کو فروغ دیئے جانے کے باوجود پراسر جمہوریت قائم ہے‘ جو کہ کئی ترقی یافتہ ممالک کے ایک مثال اور ایشیاء کئے اہم ممالک میں سے ایک ہے‘‘۔
مگر ابراہیم نے خود کو ’’ ہندوستان کو قریب سے جائزہ لینے والا اور مسلسل دورہ کرنے والے ‘‘ قراردیا۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ خارجی پالیسی کے تنصیبات ‘ خصوص کر ’’ سیول سرویس کے لوگ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کو اقتصادی مفاد کے چھوٹے مفاد میں دیکھیں۔
ہوسکتا ہے کہ کیونکہ دہلی اپنے پڑوسی روہنگیائی بحران جیسے مسائل پر خاموشی اختیار کرتا ہے۔ مگر ہندوستان ایک قائدانہ جمہوریت ہے ‘ اس کو ایسے مسائل پر سخت ہونا چاہئے‘ اس بات سے بے پرواہ ہوکر کے کوئی بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے مسلئے کو اٹھایاگا‘ اس طرح کا ڈر نہیں لانا چاہئے‘‘۔
چین کے بڑھتے قدم اور اشیاء کے متعلق امریکہ کی سونچ میں بین الاقوامی راشتوں کو برقرار رکھنے کے لئے ابراہیم کا ماننا ہے کہ اس پروپگنڈے کے ائیڈیا پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے جس کو جواہر لال نہرو نے استعمال کیاتھا۔
ابراہیم نے کہاکہ ’’ اشیاء کے معاملات کو لے کر نہرو صحیح تھے اور انہوں نے ترقی یافتہ ممالک سے عالمی طاقتوں کے لئے خلاف کھڑے ہوئے ہونے کے لئے اظہار یگانگت مانگی تھی۔ علاقائی سطح پر گٹھ جوڑ مستقبل میں تشویش ناک ہے۔وہیں بیسویں صد کے آخر میں عالمی احکامات آج کے دورمیں مختلف ہیں‘ ہندوستان او راے ایس ای اے این میں تعلقات کے علاوہ ملیشیاء اور ہندوستان استحکام کو یقینی بنانے کے لئے اہم رول ادا کرسکتا ہے‘‘۔
ان کے اپنے ملک میں ابراہیم کو ترقی پسند اور یفارمرس لانے والے کے طور پر دیکھا جاتا ہے‘ یہ دو چیزیں کی انہو ں نے بھاری قیمت جیل میں وقت گذار کر ادا کی ہے۔
ملیشیاء کی سیاست میں سخت گیر مذہب پرستوں کی موجودگی کے سبب ابراہیم کا ماننا ہے کہ ہر معاملے میں مداخلت مذہب کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوگی۔انہو ں نے کہاکہ ’’ انڈونیشیا اور ہندوستان میں دنیا کی بڑی مسلم آبادیاں ہیں۔
دونوں جمہوری ممالک ہیں‘ دونوں ممالک کی عوام آزاد ہے۔ حقیقت میںیہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ جہاں پر مسلمان اقلیت میں ہیں‘ وہ آزاداقدار کے لئے دباؤ بناسکتے ہیں‘‘