چیف جسٹس شاہ کے جانچ کا مطالبہ سے اس کی کہانی میں ایسا موڑ پیدا آگیا ہے کہ اب بغیرمناسب جانچ کئے گلے کی ہڈی نکل نہیں سکے گی
خالد علوی نے اپنے مضمون میں لکھا کہ دہلی کے انگریزی پندرہ روز ہ ’کاروین‘ نے جج لویا کی ناگہانی موت کے ارد گرد کچھ سوال اٹھاکر قیامت مچادی ہے۔ دراصل جج لویا گجرات میں سہراب الدین انکاونٹر کے معاملے میں سی بی ائی عدالت کے جج تھے۔ انہو ں نے جنتا پارٹی کے قومی صدر امیت شاہ کو ذاتی طور سے عدات میں حاضر ہونے کا حکم سنایاتھا۔ ان کی موت کے بعد سی بی ائی عدالت میں ایم بی گوساوی جج مقرر ہوئے انہوں نے ایک ماہ کے اندر ہی امیت شاہ کو باعزت بری کردیا۔
یہ معاملات اتنے پیچیدہ نہیں ہیں کہ کسی جج کی موت پر قتل کا شبہ کیاجائے نئے جج ایم بی گوساوی نے 30ڈسمبر 2014کے فیصلے میں امیت شاہ کو سیاسی وجوہات کی بناء پر پھنسانے کی بات بھی کہی تھی۔ لیکن کاروین میگزین نے جج لویا کی بہن کے حوالے سے یہ خبر بھی دی ہے کہ ہائی کورٹ کے ایک جج نے مرحوم لویا کو سوکروڑ کی رشوت دلانے کی پیش کش بھی کی تھی جس کو جج لویا نے رد کردیاتھا ’’ کاروین‘‘ کی رپورٹ کے بعد انڈین ایکسپریس اخبار نے بھی ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی جس نے ’’ کاروین‘‘ کی رپورٹ میں کئے گئے کئی اعتراضات پر شواہد کی غیر موجودگی کی بات کہی ہے۔
لیکن بغض اعتراضات کو رفع ہوجانے کے باوجود جم برجموہن ہری کشن لویا کی موت مزید پراسرار ہوگئی ہے۔اطلاعات کے مطابق جج لویا کی عمر48سال کی تھی او رانہیںیکم ڈسمبر 2014کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے لیکن انڈین ایکسپرین ’ کارواں او راین ڈی ٹی وی کے مطابق ان کی موت پر لاتعداد سوالات اٹھتے ہیں۔ دل کا دورہ پڑنے کے وقت الگ الگ بتایا گیا ہے۔
لویا کی لاش ان کی بیوی او ربچوں کو نہ سونپ کر لاتور کے قریب ان کے آبائی گاؤں پہنچائی گئی او ران کو نذر آتش کردیاگیاپولیس کے مطابق لاش کے ساتھ دوجج صاحبان اسی لاش والی گاڑی میں موجود تھے لیکن دونوں جج صاحباب نے بتایا کہ دوسری گاڑی میں لاش والی گاڑی کے پیچھے جارہے تھے۔ لیکن دونوں جج صاحبان کئی گھنٹے بعد پہنچے۔ جس کی وجہہ ایک بار کار میں خرابی اور دوسری با ر حادثہ بتایاگیا۔ دل کے دورے کے ٹائم پہلے صبح چار بجے بتایا گیابعد میں ایک چشم دید نے رات کے دس بجے بتایا اور یہ بھی بتایا کہ بارہ بجے رات تک پوسٹ مارئم ہوچکا تھا ۔
انتقال کے ایک ماہ بعد لویا کے بیٹے نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر جانچ کا مطالبہ کیاتھا ۔ جج لویا کی بھانجی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ لویا14ڈسمبر2014کو امیت شاہ کوعدالت میں حاضری ہونے کا حکم دیاتھا۔ اسکے بعد وہ ایک جج کی بیٹی کی شادی کی شرکت کے لئے ناگپور گئے حالانکہ وہ ناگپور نہیں جانا چاہتے تھے لیکن دو ججوں کے اصرار کے بعد ان کا کو یہ سفر کرنا پڑا جو آخری سفر ثابت ہوا یہ دونوں جج صاحبان بھی آخری سفر تک ساتھ رہے اور لاش کے کافی دیر بعد گاؤں پہنچے۔
شادی کی رات جج لویا نے اپنی بیوی سے بات کی ۔ اس کے بعد صبح کو لویا کی بیوی کو اپنے شوہر کی موت کی اطلاع ملی۔ اصولا لویاکی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد ناگپور میں ہی رشتہ داروں کو بلاکر سونپنی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا او رلاش ان کے آبائی گاؤں میں بھیج کر نذرآتش کرادی گئی۔ اس سلسلے میں قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ لویا کے والد کو فون پر اطلاع دی گئی تھی کہ لویا کی لاش گاؤں بھیجی جارہی ہے ۔ لیکن آج تک یہ راز فاش نہ ہوسکا کہ فون کس نے کیاتھا۔ اس خبر پر بھی اتفاق رائے نہیں ہے کہ لویاکوگیسٹ ہاوس سے اسپتال کون لے گیا وہ اٹو رکشتہ میں لے جائے گئے تھے یا کار میں او ران کوکون لے گیاتھا۔ اگر کار میں گئے تو کس کی کارتھی۔ وہاں ان کا ای سی جی کرایاگیا۔ اسی سی جی رپور ٹ میں کمپویٹر کے ذریعہ ڈالی گئی تاریخ غلط ہے۔
ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ای سی جی رپورڈ مشین خراب تھی۔ انتقال کے بعد پوسٹ مارٹم رپورٹ کے ہرصفحہ پر ایک ایسے آدمی کے دستخط ہیں جس نے خود کو مرحوم جج کا چچا زاد بھائی بتایا۔ جبکہ خاندان کے لوگوں کے مطابق ان کا کوئی چچا زاد بھائی ہی نہیں ہے۔ اس بات کی بھی جانچ ہونی چاہئے کہ کیااس دن تمام اسی سی جی رپورٹوں پر غلط تاریخ ڈالی گئی تھی۔اخبارات میں تین سال پرانی لیکن بے حد اہم خبر کے شائع ہونے کے بعد کیاحالات ہوئے کہ تمام خاندان کے لوگ میڈیاکی دسترس سے با ہرہوگئے۔
ایک اطلاع کے مطابق جج لویا کا آبائی گھر بند پڑا ہے۔ ان کے والد کو کوئی پتہ نہیں ہے۔ کارواں کی خبرکے مطابق اس کے نامہ نگاروں کو یہ بھی ستاوتی پولیس اسٹیشن ناگپور اور اسپتال میں پتہ چلا کہ جج لویا کی موت رات کے دس بجے ہوچکی تھی او رپوسٹ مارٹم کی رسم بھی گیارہ بج کر 55منٹ پر ختم ہوچکی تھی۔ اگر یہ سب اطلاعات صحیح ہیں تو ان کی بیوی کی لویا کی موت کی اطلاع صبح میں کیوں دی گئی؟۔یہ تمام واقعات اتفاقیہ طور پر وقوع پذیرہوسکتے ہیں۔ چونکہ کہ جج لویاایک بہت اہم مقدمے کی سماعت کررہے تھے اور اس مقدمے میں کوئی غیرمعمولی آدمی ملزم نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے حالیہ صدر امیت شاہ تھے ۔ لیکن ہمیںیہ بھی سمجھنا چاہئے کہ اتنے اہم مقدمے کی سماعت کے دوران جج کو کس ذہنی کشمکش سے گزر نا پڑ ا ہوگا ۔
اس لئے میرا خیال ہے کہ جج لویا کی موت قدرتی طور پر بھی ہوسکتی ہے۔ بلکہ جب تک قتل ثابت نہ ہوجائے ہمیں قدرتی موت ہی سمجھنا چاہئے۔ دہلی کے وزیر اعلی ‘ کانگریس او رکمیونسٹ پارٹی کے ترجمانوں نے اس حادثے کی جانچ کا مطالبہ کیاہے۔ سیاسی جماعتیں تو ایسا کوئی موقع چھوڑ ہی نہیں سکتیں کیونکہ بالواسطہ طور پر میڈیا نے شک کی سوئی امیت شاہ کی طرف کردی ہے ۔
لیکن ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس شاہ نے بھی جانچ کا مطالبہ کرکے اس کہانی میں ایسا موڑ پید ا کردیا ہے کہ اب بغیرمناسب جانچ کے گلے کی ہڈی نکل نہ سکے گی۔ اس سے قبل لاتو ر بار اسوسیشن نے بھی جج لویا کے قتل کی جانچ کا مطالبہ کیاہے۔ میراخیال ہے کہ برسراقتدار جماعت کے ذمہ داران اگر گجرات انتخابات میں مصروف نہ ہوتے تو اتک جانچ کمیٹی تشکیل کردی گئی ہوتی۔ اس وقت عدلیہ اور برسراقتدار جماعت کے حق میں یہ ہے کہ جلد از جلد جانچ ہوتاکہ عوام کو اعتماد بحال ہو اورجج لویا کے تمام اہل خانہ بھی خوف وہراس کے ماحول سے باہر آسکیں‘‘۔