انصاف کاترازو دوبارہ ڈانواڈال 

اس امر میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ گیا کہ ملک کاعدالتی نظام مکمل طور پر خود مختار اوربااختیار نہیں ہے
ہندوستان کے عدالتی نظام کے بارے میں دنیا کی رائے بہت اچھی تو نہیں تھی ‘ لیکن بہت بری بھی نہیں تھی۔ عام طور یہ سمجھا جاتھا تھا کہ ہندوستان کینچلی سطح کی عدالتوں میں تو کرپشن عام ہے لیکن سب سے اونچی عدالت یعنی سپریم کورٹ بہرحال کئی علتوں سے پاک ہے۔ اس تصور پر پہلی چوٹ 12جنوری 2018کو پڑی جب عدالت عظمی کے چار بزرگ ججوں نے ایک پریس کانفرنس کرکے دنیا کو بتایا کہ سپریم کورٹ میں سب خیرت نہیں ہے۔

لیکن حال کے دوواقعات نے انصاف کے ترازو کو بری طرح ڈانواڈول کردیا ہے ۔ پہلے واقعہ کی تعلق نیشنل انٹیلی جنس ( این ائی اے) کی ایک عدالت میں گیارہ سال سے زیرسماعت مقدمہ کے فیصلے سے ہے جس کے تحت مکہ مسجد بم دھماہ کے تمام ماخودین کو بری کردیا گیا ۔ بری کئے جانے والوں میں سب سے اہم نام آسیما آنند کا تھا۔ این ائی اے عدالت نے ان سب کواس لئے بری نہیں کیاکہ یہ سب معصوم او ربے قصور تھے ۔

انہیں ثبوتوں کی کمی کی وجہہ سے بری کیاگیا ۔خیال رہے کہ ثبوتوں کی کمی99فیصد ان حالات میں پائی جاتی ہے جب یاتوتفتیش میں ڈھیل ڈھال برتی گئی ہو یا پھر سرکاری وکیل اتنا نااہل ہوکہ مقدمہ کی عدالت اس کے دالائل میں دم نہ سمجھتی ہو۔ این ائی اے عدالت کے سامنے ایک کمزور اور پھسپھسا کیس لایاگیا تھا ۔ سوامی آسیما انند کا قصہ بہت دلچسپ ہے اور دوہرائے جانے کا مستحق ہے ۔

حیدرآباد کی مکہ مسجدمیں دھماکہ کے بعد دھڑا دھڑ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہوئی تھی‘ حالانکہ نو مرنے والے اور پچا س سے زائد زخمی ہونے والے سب کے سب مسلمان ہی تھے۔تفتیش کے کئی دنوں بعد جب تفتیش کرنے والو ں کو پتہ چلا کہ دھماکہ کچھ انتہا پسند ہندو عناصر کی سازش کانتیجہ تھا ‘ تب جاکر سوامی آسیما آنند او رکچھ دوسرے انتہا پسندو ں کی گرفتاری عمل میں ائی۔

کہاجاتا ہے کہ سوامی آسیما آنندکی جیل میں ایک مسلمان لڑکے سے ملاقات ہوئی ‘ جو ان کی خدمات پر مامو رکیاگیاتھا۔ اس لڑکے کو اس بم دھماکہ کے الزام میں گرفتار کیاگیاتھا ۔ لڑکا بہت سیدھا سادھا بھولا بھالا تھا۔ اس نے سوامی کو اپنے مفلس ماں باپ او راپنے غریب پس منظر کے بارے میں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ دھماکے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

سوامی کو اس پر بہت ترس آیا۔ انہیںیہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی کہ دھماکہ انہو ں نے کیاتھا او ربھگت ایک معصوم رہا ہے ۔ ان کاضمیر ایک انگڑائی لے کر جاگ اٹھا۔ انہو ں نے جیل حکام سے کہاکہ ایک مجسٹریٹ کو بلایاجائے کیونکہ وہ اقبال جرم کرنا چاہتے ہیں۔ مجسٹریٹ کے سامنے انہیں پیش کیاگیا۔ مجسٹریٹ نے ان سے پوچھا کہ کیاوہ کسی دباؤ میں اقبال جرم کررہے ہیں۔ انہوں نے سختی سے کہاکہ ان پر کوئی دباؤ نہیں ہے ۔

یہ خالصتا ان کے ضمیر کا مسئلہ ہے ۔ مجسٹریٹ نے پھر بھی کہاکہ وہ جلدی بازی او رجذباتیت سے کام نہ لیں۔ انہیں اپنے فیصلے پر غیرجذباتی ہوکر سونچنے کے لئے تین دن کاوقت بھی دیالیکن تین دن بعد ان کا ضمیر بیدا رہا۔ لیکن 2014میں بی جے پی الیکشن جیتا دیکھ کر ان اسیما آنند کا ضمیر پھر

ایک با ر غفلت کی نیند سونے چلا گیا۔ بی جے پی اور آ رایس ایس کے بڑے بڑے لیڈران نے کہنا شروع کردیا کہ ہندودہشت گردی نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں اور جھوٹے الزامات میں جو ہندو پکڑے گئے ہیں وہ تو دیوی دیوتاؤں کی طرح پوتر ہیں لہذا اس کے بعد تو آسیما آنند کے ضمیر کی آنکھیں پوری طرح بند ہی ہوگئی۔ انہو ں نے اعلان کیا کہ اقبال جرم انہوں نے دباؤ میں اکر کیاتھا ۔

وہ تو بالکل نردوش ہیں۔سرکار کے کہنے پر این ائی اے نے ان کی پیٹ تھپتھپائی اور بالآخر عدالت نے انہیں بردی کردیا۔لیکن رکئے ۔ ڈرامہ ابھی ختم نہیں ہوا ۔ اس کادوسرا ایکٹ باقی تھا جو پہلے ایکٹ سے بھی زیادہ دلچسپ او رسنسنی خیز تھا ۔ فیصلہ سنانے کے بعد این ائی اے عدالت کے فاضل جج رگھویندر ریڈی عدالت سے باہر ائے۔ پہلے پندرہ دن کی چھٹی کی درخواست دی پھر عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔ استعفیٰ بقول انہو ں نے ذاتی اسباب کی بناء پر دیاتھا

۔ لیکن استعفیٰ دینے کے لئے انہوں نے وقت ایسا چنا کہ یہ سمجھا گیا کہ انہوں نے استعفیٰ ضمیر کی آواز سن کر دیاہو۔ شاید وہ خود اپنے فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ یہ کہاگیاکہ اگر استعفے کی بنا ذاتی اسباب تھے تو وہ اسی دن تو پیدانہیں ہوئے ہونگے ‘ وہ تو پہئے بھی موجود رہے ہوں گے ۔

ذاتی اسباب اسی وقت اور اسی دون کیسے اتنہ اہم ہوگئے ۔ سرکارکو خوف ہوا کہ پیغام یہ جارہا ہے کہ یہ جج ریڈی نے استعفے ضمیر کی آواز تھا۔ سرکاری نے اس تاثر کودور کرنے کے چھٹی نامنظور کی ‘ پھر استعفیٰ یہ کہہ کر مستر د کردیا انہیں تین ماہ کی نوٹس کے بعد استعفیٰ دینا چاہئے تھا۔

لیکن جج ریڈی یہ کہنے پر تلے ہوئے تھے کہ انہیں ایسی منصفی نہیں کرنا ہے۔انہو ں نے سرکاری کا حکم مان کر ڈیوٹی جوائن کرلی ‘ لیکن اسی کے ساتھ رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کی درخواست دے دی ہے۔ سرکاری کو اسے ماننا ہی پڑے گا۔ لیکن اس امر میں کوئی شبہہ باقی نہیں رہ گیاکہ ملک کا عدالتی نظام مکمل طور پر خود مختار او ربااختیار نہیں ہے۔اسے سرکار ی دباؤ بھی جھیلنا پڑسکتا ہے۔

گجرات کی ڈاکٹر مایاکوڈنانی کی برات کو بطور دلیل پیش کیاجاسکتا ہے۔جج لویا کی مشتبہ موت کی چھان بین کے مطالبہ پر مبنی مفاد عامہ کی درخواستوں کی بابت سپریم کورٹ کے فیصلہ نے سب کوششد کردیا۔ عام طور سمجھا جارہاتھا کہ کسی کی مشتبہ حالت میں موت کی انکوائری کامطالبہ ایک عام سے بات ہے ‘ لیکن عدالت عظمی نے اسے سختی کے ساتپ مسترد کردیا