مذکورہ راجستھان ضمنی انتخابات میں 17اسمبلی حلقہ جات آتے ہیں‘جوکہ ریاست کے دوسو اسمبلی سیٹوں پر مشتمل 8.5فیصد کا حصہ ہے۔
راجستھان۔ یہاں سے بی جے پی کے لئے مسلسل خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے جہاں پر پارٹی نے تمام تین سیٹوں جس میں دو لوک سبھا اور ایک اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخابات بری طرح شکست فاش ہوئی ہے ۔ یہ نتیجہ اس وقت سامنے آیا ہے جب جاریہ سال کے آخر میں راجستھان کے اندر اسمبلی انتخابات منعقد ہونے والے ہیں‘ اور ان نتائج سے یقیناًچیف منسٹر وسندھرا راجیہ کو مایوسی ہوئی ہے۔
پارٹی کے ایک لیڈر نے کہاکہ کسانوں کے احتجاج‘ ہائی کورٹ کے گجر تحفظات بل پر روک‘ افسروں کے خلاف احتیاطی تحقیقات کے خلاف ارڈیننس‘ گاؤ رکشہ کا تشدد اور حالیہ پدماوت تنازع ’’ضمنی انتخابات میں چیف منسٹر ان مسائل پر زیادہ تر الجھ رہے‘اس قسم کی خبروں پر اٹکے رہے‘‘۔پارٹی لیڈر جنھیں امید تھی کہ اگر بی جے پی کامیاب ہوجاتی ہے تو راجئے حکومت پر یہ ایک منظوری کا اسٹامپ ہوگا‘ او ریہ بھی کہاکہ ان مسائل سے جو نقصان ہوا ہے وہ کانگریس اور میڈیا دونوں کے لئے درست نہیں ہوگا۔تاہم نتائج اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ مذکورہ مسائل بی جے پی کے توقعات کو مجوزہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر ہیں ان کو خطرہ لاحق ہوگیاہے۔ضمنی انتخابات دراصل 17اسمبلی حلقہ جات کے حدود میں تھے۔
الور اور اجمیر پارلیمانی حلقہ جس میں ہر ایک کے اندر اٹھ اسمبلی حلقہ جات شامل ہیں اور ایک اسمبلی حلقہ مندلگڑہ ہے۔مذکورہ راجستھان ضمنی انتخابات میں 17اسمبلی حلقہ جات آتے ہیں‘جوکہ ریاست کے دوسو اسمبلی سیٹوں پر مشتمل 8.5فیصد کا حصہ ہے۔تاہم اس کو اسی سال کے آخر میں منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات کو’’ سیمی فائنل‘‘ قراردیا جارہا ہے۔اس کے علاوہ الور ہریانہ سے جڑا ضلع ہے ‘ جبکہ اجمیر راجستھان کے وسط میں ہیں وہیں پر مندلگڑہ مدھیہ پردیش کی سرحد پر واقع ہے۔
لہذا نتائج اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ رائے دہندوں کا کچھ حصوں میں نہیں بلکہ پوری ریاست میں بدلہ ہوا ہے ۔ پدماوت سے پیدا ہوئی تنازع ‘ روڈی شیٹر چتور سنگھ او رگینگسٹر انند پال گجر کا انکاونٹر کانگریس کے لئے طبقہ کی بنیاد پر راجپوتوں کی حمایت کا موجب بن رہا ہے ‘ اسی طرح گجر بھی حکومت کے تحفظات بل پر ہائی کورٹ کی روک کے بعد ناراض چل رہے ہیں۔دوسرا مسئلہ کسانوں کا ہے ۔ پچھلے سال ستمبرمیں شیخاوت علاقے میں کسانوں کے تیرہ روزہ احتجاج کے بعد بی جے پی حکومت نے زراعت کے لئے کسانوں کو پچاس ہزار کا قرض دینے کا اعلان کیاتھا‘ مگر اب تک اس پر کوئی عمل نہیں ہوا۔ کاروباری بھی جی ایس ٹی اور نوٹ بندی سے ان کے کاروبار پر اثر پڑنے کی دہائی دے رہے ہیں۔
مذکورہ نتائج کا مطلب بی جے پی میں باغی چل رہے لیڈروں کی آواز مزید بلند ہوجائے گی‘ باغی بی جے پی ایم ایل اے گھنشام تیوری نے جمعرات کے روز یہ کہا ہے کہ’’ لوگوں نے راجئے حکو مت اور مرکزی قیادت کو سزا دی ہے‘‘۔ تاہم بی جے پی ان حقائق کو سنجیدگی سے لے گی کیونکہ اس کے چند حامی چاہتے ہیں وہ اس کو ’’ جگانے والا کال‘‘ کہہ رہے ہیں۔
اجمیرمیں 58سالہ چندریش نے انڈین ایکسپریس سے کہاکہ ’’ ہم نے بی جے پی کی حمایت اس کی ہندو توا نظریہ اور وزیراعظم نریندر مودی کی وجہہ سے حمایت کی ‘ مگر جی ایس ٹی او رنوٹ بندی کاروبار پر ہتھوڑا ثابت ہوا۔فی الحال وزیر اعظم مودی وہی کررہے جو وہ چاہتے ہیں کیونکہ اندر او رباہر ان کے لئے کوئی اپوزیشن نہیں ہے جو انہیں چیک کرسکے‘‘۔ ان کے دوست سنیل جین نے کہاکہ ’’ بی جے پی کی ہر چیز بہترین ہے سوائے معیشت کے۔ میں بی جے پی بڑا مداح ہوں‘ مگر ہمارا کاروبار بی جے پی کی طرف سے متاثر ہوا ہے ‘ سال2019میں ہوسکتا ہے ہم بی جے پی کی حمایت کریں گے‘ مگر فی الحال بی جے پی جاگنے کی ضرورت ہے‘‘۔