جمعرات کو ہمیں اپنے ملک کی حکومت پر اس وقت فخر محسوس ہوا جب ہمارے ملک کے مندوب سید اکبر الدین نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں امریک کی مخالفت اختیار کرتے ہوئے فلسطینیوں کے حق میں وو ٹ دیا۔ خاص بات تو یہ ہے کہ یوں تو ہندوستانی حکومت کے اسرائیل سے گہرے مراسم ہیں ‘ ہندوستان اسرائیلی ہتھیاروں ک سب سے بڑا خریدار ہے اور گذشتہ دوونوں نریندر مودی نے اسرائیل کا دورہ بھی کیا تھا‘ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ جب بات حق کی طرف داری کی ائی تو حکومت ہند نے اپنے مندوب کو ہدایت بھیجی کہ وہ امریہ کی جانب سے یروشلم کی صیہونی حکومت کا دارلخلافہ تسلیم کرنے کے خلاف ووٹ دے کر فلسطینیوں کی حمایت کریں‘ حالانکہ ووٹنگ سے قبل ہی امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ان تمام ممالک کو ( جنھیں کسی نہ کسی مشکل میں امداد دیتا ہے) کھلی ہوئی دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے امریکہ کے خلا ف ووٹ دیا تو سنگین نتائج بھگتنے کو تیار رہیں۔
واضح ہوکہ امریکہ کی مبصر نکی ہیلی نے اقوام متحدہ کے تمام ممبر ملکوں کوووٹنگ سے ایک دن قبل ایک دھمکی آمیز خط بھی بھیجا تھا ‘ جس میں امریکہ کی مخالفت کرنے کے نتائج بھگتنے کو تیار رہنے کو کہاگیاتھا۔ اس کے علاوہ نکی ہیلی نے عالمی برداری پر یہ احسان جتانے کی کوشش بھی کی تھی کہ اقوام متحدہ کو بھی سب سے زیادہ مالی مدد فراہم کرنے والا ملک امریکہ ہے ‘ اس اشارے کا مطالب یہ تھا کہ اگر اقوام متحدہ نے امریکی مفادات کے خلاف ووٹ دیا تو پھر اس کو دی جانے والی رقم پر تخفیف کی جاسکتی ہے ‘ مگر امریکہ کی ان اوچھی حرکتوں کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی برداری پر کوئی اثر نظر نہیں آیا۔جب امریکہ کے خلاف قرارداد کا مسودہ پیش کیاگیا تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں 172ممالک کے مندوبین موجود تھے۔
ان میں 128ممبران نے ببانگ دہل امریکہ کے خلاف ووٹ دیا جبکہ امریکہ کی حمایت میں صرف نو ووٹ پڑے ‘ ان میں سے بھی ایک خود امریکہ اور ایک اسرائیل تھا پ امریکہ کے لئے سب سے بڑی شرمندگی جی بات یہ تھی کہ اس کے ہر معاملے میں شریک رہنے والے یوروپی ممالک ‘باوفا عرب دستوں اور قابل اعتماد ساتھیوں نے بھی اس کاساتھ نہیں دیا۔ یہا ں تک کہ سعودی عرب ‘ بحرین ‘ متحدہ عرب امارات اور مصر جیسے امریکی حلیفوں نے بھی امریکہ کے خلاف ووٹ دینے کی جرات کی اورترکی نے تو بہت ہی سخت الفاظ میں امریکی دھمکیوں کا جواب دیا ‘ البتہ جن 35ملکوں میں قرارداد کے حق یا اس کی مخالفت میں وو دینے سے اجتناب کیاان میں آسڑیلیا ‘ کناڈا ‘ فلپائن اور ارجنٹینا جیسے اہم ممالک شامل تھے۔
شاید یہ ممالک امریکہ کی دھمکیوں سے مرعوب ہوگئے اور انہو ں نے قرارداد کی حمایت یا مخالفت میں ووٹ دینے سے گریز کرنا ہی مناسب سمجھا۔ واضح ہوکہ اس قرارداد کے پاس ہونے کے بعد امریکہ کی مبصر نے نہایت بے غیرتی کے ساتھ کہاکہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی قرارداد امریکہ کے اردوں پر کوئی اثر نہیں پڑیگا اور وہ ہر حالت میں امریکی سفارت خانہ کو یروشلم میں منتقل کرے گا‘ لیکن یہ بات امریکہ کو بھی اچھی طرے معلوم ہے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد اتنا آسان نہیں ہے جتنا وہ سمجھ رہا ہے ‘کیونکہ مشرقی وسطی کے تمام ممالک ٹرمپ کے اعلان کی مخالفت کررہے ہیں۔ ٹرمپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ عالم اسلام کوڈرا دھمکاکر اپنی پالیسیاں نافذ نہیں کرسکتے۔
ادھر ہمارے ملک میں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف ووٹنگ کرنے کی وجہہ سے بہت سے فسطائی عناصر حکومت ہند کی مذمت کررہے ہیں اور حکومت ہند کی جانب سے امریکہ کے خلاف ووٹ دینے کے فیصلے کو غلط قراردے رہے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ جب فلسطینیوں کے ساتھ بہت سے عرب ممالک بھی کھل کر نہیں دیتے توپھر ہندوستان اس معاملے میں سرگرم رول کیوں ادا کرتا ہے؟دوسری طرف سے تمام انصاف پسند ‘ سکیولر اور مظلوم نوازہندوستانی اس بات کے معترف ہیں کہ نریندر مودی کے سرکار نے بہت سے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ کے خلاف ووٹ دینے کا جو فیصلہ کیا‘ اس کی وجہہ سے ہندوستان کے وقار میں اضافہ ہوا ہے اور یہ بات پھر ایک بار واضح ہوگئی ہے کہ ہندوستان فلسطین کے معاملے میں اپنی سابق پالیسی پر ثابت قدام ہے