انتخابی وعدے کی تکمیل ممکن ‘ امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے اعلان کے بعد ٹرمپ کا اقدام
واشنگٹن ۔ 3ڈسمبر ( سیاست ڈاٹ کام ) امریکی اعلیٰ حکام کا کہنا ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ یروشلم کو اگلے ہفتے اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کرنے والے ہیں۔یروشلم اقوام متحدہ کے مطابق مقبوضہ علاقہ ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے مشرق وسطی کا بحران سنگین صورت حال اختیار کر سکتا ہے۔امریکہ ٹی وی چینل سی این این سمیت بہت سے امریکی اورمغربی ذرائع ابلاغ امریکی حکام کے حوالے سے اطلاع دے رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ سے اس متنازعہ فیصلے کا اعلان اگلے ہفتے متوقع ہے۔اقوام متحدہ یروشلم پر اسرائیل کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کے مطابق یہ متنازع علاقوں میں شامل ہے جس پر اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے۔فلسطینی بھی کسی طور بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کی طرف سے اس بارے میں شدید رد عمل سامنے آ سکتا ہے۔امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیں گے۔یروشلم سمیت اسرائیل میں بیس فیصد آبادی اسرائیلی عربوں کی ہے اور امریکہ کی طرف سے یہ اقدام اْن لوگوں کو بھی اشتعال دلا کر انھیں شدت پسندی پر مائل کر سکتا ہے۔بی بی سی کے امریکی وزارتِ خارجہ کے نامہ نگار کا کہنا ہے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان اصل میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اپنے ایک انتخابی وعدے کو پورا کیا جانا ہو گا۔امریکی کی ڈیلاویئر یونیوسٹی میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر ڈاکٹر مقتدر خان نے بی بی سی کے ریڈیو پروگرام سیربین میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکی خفیہ اداروں اور انٹیلی جنس اور فوجی حکام کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے خطے میں تشدد کی نئی لہر آ سکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ ان کے اندازوں کے مطابق اس اعلان کا شدید رد عمل سامنے آئے گا اور اس کے نتیجے میں بہت زیادہ جانی نقصان ہو سکتا ہے۔مقتدر خان نے مزید کہا کہ انٹیلی جنس رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا کہ فلسطینیوں کے علاوہ یروشلم سمیت اسرائیل میں بیس فیصد آبادی اسرائیلی عربوں کی ہے اور امریکہ کی طرف سے یہ اقدام ان عربوں کو بھی اشتعال دلا کر انھیں شدت پسندی پر مائل کر سکتا ہے۔صدر امریکہ کے اس اعلان کے ممکنہ اثرات پر مزید روشی ڈالتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں موجود امریکی فوجی اڈوں اور دیگر تنصیبات کو بھی نشانہ بنائے جانے کے خدشات کئی گناہ بڑھ جائیں گے۔