امریکہ میں آر ایس ایس کا عفریت

ہندوتوا تنظیم کا عطیہ قبول کرنے سے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کا اِنکار
واشنگٹن۔ 2 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) سنگھ پریوار نہ صرف ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کررہا ہے بلکہ فرقہ پرستی کے اس سب سے بڑے عفریت کے پیٹ سے نکلے فرقہ پرستی کے جراثیم دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی حالات خراب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ملکوں میں سنگھ پریوار کے حامی اپنے نظریہ ہندوتوا کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل ، حقوق انسانی کی بے شمار تنظیموں کے علاوہ خود ان ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہندوستان میں قوم پرستی کے نام پر ہندوتوا کی یہ تنظیمیں کیا گل کھلارہی ہیں۔ مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملے کررہی ہیں یا کروا رہی ہے گرجا گھروں کو نذر آتش کرنے میں بھی ہندوتوا طاقتیں ملوث ہیں۔ یہ گروپ اقلیتوں کو چن چن کر نشانہ بنا رہے ہیں اور یہ سب کچھ ہندوتوا کے نام پر ہو رہا ہے حالانکہ ہندوستان میں اس طرح کے شرپسند مٹھی بھر ہیں لیکن مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کی طاقت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔

یہ طاقتیں اقتدار کے زعم میں اس قدر مبتلا ہوگئی ہیں کہ وہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک کو ہندو راشٹر (ہندو ملک) سمجھنے لگے ہیں وہ خود کو سب سے بڑا قوم پرست اور محب وطن سمجھتی ہیں اور جو کوئی ان کے فرسودہ اور انسانیت بلکہ ملک دشمن نظریات سے اختلاف کرتا ہے تو اسے غدار کا نام دے دیتی ہیں جب کہ ہم نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ ہندوتوا کی طاقتیں مغربی ملکوں میں بھی اپنی گندگی پھیلانے کی کوشش کررہی ہیں۔ ہندوتوا گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے ایک امریکی یونیورسٹی کو 3 ملین ڈالرس کا عطیہ دیا لیکن اس یونیورسٹی انتظامیہ کی ستائش کی جانی چاہئے کہ اس نے بڑی حقارت کے ساتھ اس عطیہ کو مسترد کردیا۔ امریکی میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہندوتوا کے ایک گروپ دھرما سوئلائزیشن گروپ نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کو 3 ملین ڈالرس کی کثیر رقم کا عطیہ دیا جس پر حقوق انسانی کی تنظیمیں چوکس ہوگئیں اور احتجاج شروع کردیا۔

اس احتجاج پر حقائق کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس نے بعد تحقیق یونیورسٹی میں 2 چیرس اسپانسر کرنے کے لئے دھرماسوئلائزیشن فاؤنڈیشن کی جانب سے دیا گیا۔ عطیہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ رپورٹس کے مطابق اس یونیورسٹی کے طلہ اور اساتذہ نے زائد از 3 ماہ تک احتجاج کیا جن پر یونیورسٹی آف کیلیفورنیا آروائن نے دھرما سوئلائزیشن فاؤنڈیشن کے اسپانسرڈ کردہ 2 چیرس کے بارے میں غور کرتے ہوئے اس کے عطیات کو مسترد کردیا۔ یہ تنظیم خود کو غیر منفعت بخش بتاتی ہے۔ کمیٹی نے اس فاؤنڈیشن کی اسپانسر کردہ مزید دو چیرس کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ سال دھرماسوئلائزیشن فاؤنڈیشن نے جس کے ٹرسٹس ہندوستان میں اقلیتوں پر مظالم اور ان کے حقوق سلب کرنے کی حامی راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور اس کی امریکی شام ہندو سوائم سیوک سنگھ سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں 4 چیرس کو اسپانسر کرنے کے ایک معاہدہ پر دستخط کئے تھے۔ اس معاہدہ کے مطابق 5 برسوں تک ہر چیز 1.5 ملین ڈالرس حاصل کرے گی جبکہ اس چیر کے عہدہ پر فائز دانشور ویدک اور ہندوستانی تہذیب، جدید ہندوستان جین ازم اور سکھ ازم پر نہ صرف تحقیق کریں گے

بلکہ ان کے بارے میں لیکچرس کا اہتمام بھی کریں گے۔ اس دوران یونیورسٹی آف کیلیفورنیا آنروین کے اسکول اور ہیومانٹیز کے علم میں یہ بات آئی کہ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ان کے رفقاء سے اس بارے میں مشاورت نہیں کی گئی بلکہ گزشتہ سال دسمبر میں ہی انہیں ان چیراس کے بارے میں اطلاع دی گئی حالانکہ معاہدہ ہوئے کافی عرصہ گذر چکا تھا۔ اس اطلاع کے عام ہوتے ہی طلباء اور پروفیسروں نے ثمر آور مشاورت نہ کرنے اور معاہدات پر دستخط کے عمل میں شفافیت سے گریز کرنے کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ طلباء اور فیکلٹی کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے یونیورسٹی معاملہ کی تحقیقات کے لئے ایک پیانل تشکیل دینے پر مجبور ہوگئی چنانچہ اسی پیانل نے دوچیرس کو مسترد کردیا، لیکن جین اور سکھ ازم اسٹیڈیز کے بارے میں مزید جائزہ لینے کی سفارش کی۔ پیانل نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر کہا کہ دھرما سوئلائزیشن فاؤنڈیشن کے نظریات یونیورسٹی آف کیلیفورنیا آئروین کے پرامن ماحول اور انسانی اقدار سے میل نہیں کھاتے جبکہ یہ یونیورسٹی تکثیری معاشرہ مشمولیات رواداری اور باہمی احترام میں کامل یقین رکھتی ہے جبکہ آر ایس ایس اور اس کے محاذی تنظیموں میں انسانیت کی ان خوبیوں کا فقدان پایا جاتا ہے جس کی مثالیں ہندوستان کے مختلف مقامات پر برپا کئے گئے فسادات ہندوتوا حامیوں کے اشتعال انگیز بیانات اور مذہب کے نام پر ان کی ملک دشمن سرگرمیاں ہیں۔