… !امریکہ بدترین خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے 

مخالف ٹرمپ احتجاج میں شدت، مختلف ریاستوں میں مظاہرے جاری، صورتحال تباہ کن ہونے کا انتباہ

واشنگٹن۔3 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف ریاستوں میں مخالف ٹرمپ ریالیوں کے درمیان پھوٹ پڑنے والے تشدد سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی عوام ٹرمپ نظم و نسق کو قبول نہیں کررہے ہیں۔ صدر امریکہ کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد ٹرمپ نے متنازعہ ایگزیکٹیو آرڈرس پر دستخط کئے تھے۔ مسلم ممالک کے خلاف ٹرمپ کی پالیسی اور ایرپورٹس پر داخلہ پر پابندی کے خلاف بڑھتے احتجاج سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ امریکہ لفظی جنگ کے بعد خانگی جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جگہ جگہ تشدد، آتشزنی اور لوٹ مار کی خبریں آرہی ہیں۔ گزشتہ رات یوسی برکلے کے طلبہ نے دہشت گرد طرز پر تشدد برپا کیا اور ایک نوجوان میلو ینوپولوس کے قتل کی کوشش کی جو قدامت پسند کارکن اور مقرر بتایا جاتا ہے۔ میلو کو سابق نیوی سیلس کی سکیوریٹی ٹیم نے وہاں سے محفوظ طور پر نکال لیا جبکہ احتجاجیوں نے آتشزنی کے ساتھ لوٹ مار شروع کی اور یہ تشدد رات دیر گئے جاری رہا۔ امریکہ میں جگہ جگہ انقلاب پسند بائیں بازو ارکان اب تشدد کے ذریعہ عوام کو ہلاک کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ سابق اوباما نظم و نسق کے ایک عہدیدار نے ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف ’’فوجی بغاوت‘‘ کی برسر عام اپیل کی ہے۔ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ امریکہ کی سڑکوں پر بائیاں بازو جنگ چاہتا ہے اور میڈیا ان حالات کو پیدا کرنے اور اکسانے والی خبریں جاری کررہا ہے۔ یہ لوگ اپنے تشدد کو حق بجانب قرار دے رہے ہیں۔ ٹرمپ اور میلو کو نازی سے تقابل کیا جارہا ہے جبکہ تشدد پر اترآئے احتجاجیوں نے کئی دکانوں پر حملہ کیا، کتابوں کو جلادیا اور عوام پر پرُتشدد حملے کئے ۔ جو لوگ صرف اپنے حق کے لیے آواز بلند کررہے تھے انہیں دبانے کی کوشش کی گئی۔ آنے والے دنوں میں عوام کی بڑی تعداد ٹرمپ نظم و نسق کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے گی تو خانہ جنگی کی بدترین صورتحال پیدا ہوگی۔ اگر تشدد کا سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو صدر ٹرمپ مارشل لا کا اعلان کریں گے۔ اس کے نتیجہ میں حالات مزید ابتر ہوجائیں گے۔ احتجاجیوں کے خلاف کسی بھی واحد سیاسی لیڈر نے تشدد بند کرنے کی اپیل نہیں کی۔ مخالف ٹرمپ احتجاج کو بڑھاوا دینے میں بی ایل ایم سے ملحق ایک اسکول ٹیچر بھی شامل ہوگئی ہیں جس نے پرتشدد احتجاجیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی تحریک میں شدت پیدا کریں۔ سیاہ فام تحریک سے وابستہ ایک کارکن حال ہی میں اس وقت سرخیوں میں چھایا رہا جب اس نے سیاٹل مخالف ٹرمپ احتجاج کے دوران ایک میگا فون لے کر عوام کو بھڑکارہا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکہ کے عوام میں عدم اطمینانی پیدا ہورہی ہے اور جگہ جگہ لوگ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف تبصرے کررہے ہیں۔ اوبیر کے سربراہ اور چیف ایگزیکٹیو ٹرویس کلانک نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے بزنس اڈوائزری گروپ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر کے حالیہ ایگزیکٹیو آرڈر اور ایمگریشن پر پابندی کے وہ خلاف ہیں۔ ٹرمپ کے گروپ میں شامل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے صدر یا ان کے ایجنڈے کی توثیق کی ہے۔ پناہ گزینوں کو امریکہ میں داخل ہونے سے روکنا اور ایمگریشن پر پابندی امریکہ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردیں گی۔ صدر ٹرمپ کے آسٹریلیا کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں۔ ایران نے امریکی ریسلرس کے دورۂ ایران پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ اسی دوران ٹرمپ کی سفری پابندی کے باعث ا یران کی ایک لڑکی کی سرجری بھی منسوخ کردی گئی ہے۔ 4 سالہ ایرانی لڑکی کے دل کا آپریشن ہونے والا تھا لیکن بے بی فاطمہ اور ان کے ارکان خاندان نے امریکہ کے سفر کا ارادہ منسوخ کردیا۔