امریکہ، ایران کیساتھ کوئی فوجی ٹکراؤ نہیں چاہتا : ٹرمپ

ایران کی جارحیت پر امریکہ خاموش بھی نہیں بیٹھے گا
ایران کو بات چیت کیلئے امریکہ سے رجوع ہونے کی ضرورت ، دروازے ہمیشہ کھلے
واشنگٹن ۔10 مئی (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعرات کو ایک اہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایرانی قیادت سے بات چیت کیلئے تیار ہیں البتہ یہ بات بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ انہوں نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایران سے یہی چاہتے ہیں کہ انہیں جب جب امریکہ کی ضرورت ہو وہ ہم سے رجوع ہوں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سابق امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے ایران سے کہا تھا کہ وہ امریکہ سے رجوع نہ ہوں لیکن حقیقتاً انہیں رجوع ہونا چاہئے۔ اگر ایران نے ایسا کیا تو پھر امریکہ بھی اپنے دروازے کھلے رکھے گا۔ دوسری طرف جہاں ٹرمپ اتنا نرم رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں وہیں انہوں نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایران نے حملہ کی جسارت کی تو امریکہ بھی اسے منہ توڑ جواب دے گا۔ وزیرخارجہ مائیک پومپیو ہمیشہ سے ہی ایران کے تعلق سے سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ ایران کی اسٹیل، لوہے اور المونیم کی صنعت پر زیادہ سخت تحدیدات عائد کرنے کے بعد نہ صرف امریکی صدر ٹرمپ بلکہ وزیرخارجہ پومپیو کا لہجہ بھی سخت ہوگیا ہے جس کا واضح مطلب ایران کو نیوکلیئر توانائی کا حامل ہونے سے روکنا ہے تاکہ وہ بالسٹک میزائیلس تیار نہ کرسکے۔ پومپیو کا ایران پر یہ الزام بھی ہیکہ ایران حالیہ دنوں میں دھمکی آمیز رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی نوعیت کی جنگ نہیں چاہتے لیکن اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو ہم خاموش تماشائی بنے نہیں رہیں گے۔ دوسری طرف ڈیموکریٹک سینیٹر کریس مرفی نے ایران سے متعلق اناپ شناپ بیان دینے پر پومپیو کو ہدف تنقید بنایا۔ انہوں نے کہا کہ عرصہ دراز سے امریکہ، ایران، ایران کرتا رہا ہے لیکن ایران نے آج تک امریکہ کو کیا نقصان پہنچایا؟ ایران کو ایک ہوا بنا کر پیش کیا جارہا ہے اور یہ سلسلہ اب رکنا چاہئے لیکن پومپیو کا یہ کہنا ہیکہ گذشتہ 40 سال سے ایران امریکی فوجیوں کو ہلاک کررہا ہے، امریکی تنصیبات پر حملے کررہا ہے اور امریکی شہریوں کو یرغمال بنارہا ہے، کیا ایسا کرنا ایران کو امریکہ کا دشمن قرار نہیں دیتا۔ ایران کی اسی حرکتوں کی وجہ سے امریکہ کو بھی اپنا دفاع کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کریس مرفی نے ایک بار پھر کہا کہ عراقی شیعہ ملیشیا، حوثی اور بشارالاسد کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا یہ سب امریکہ کے دشمن نہیں؟ تمام تر توانائی صرف ایران پر کیوں صرف کی جارہی ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ یہ کہنا نہیں چاہتے کہ وہ ایران کے ساتھ ٹکراؤ کا موقف نہیں اپنائیں گے لیکن وہ ایسی توقع بھی رکھتے ہیں کہ ایسا نہ ہو۔