امدادی کارکنوں کی جانب سے کئے جانے والے مبینہ جنسی استحصال سے اقوام متحدہ واقف ۔

سال2002میں اقوام متحدہ سے اس بات کی شکایت میں دعوی کیاگیاتھا کہ چالیس کے قریب تنظیموں کے امدادی کارکن نوجوان خاتون پناہ گزینوں کا کھانے کے عوض جنسی استحصال کررہے ہیں‘ جس میں پندرہ بین الاقوامی تنظیموں بشمول سیودی چلڈرن اور میڈیکنس سنس فارونٹیر بھی شامل تھے۔

ریورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ اقوام متحدہ امدادی کارکنوں کے ہاتھوں پناہ گزینوں کو کھانے کے عوض جنسی استحصال کے لئے مجبور کرنے کے واقعات سے واقف ہے۔ ویسٹ افریقہ کے پناہ گزین کیمپوں میں کھانے کے عوض جنسی استحصال پر 84صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ 2002میں یواین کو پیش کی گئی تھی مگر اس کی اشاعت عمل میں نہیں ائی۔

اس میں دعوی کیاگیا ہے کہ چالیس سے زائد امدادی تنظیموں کے کارکن جس میں نامور 15تنظیمیں شامل ہیں نے نوجوان پناہ گزینوں کے جنسی استحصال میں ملوث ہیں۔سال2002کی تحقیق کے دستاویزات میں الزام ہے کہ ’کھانا‘ تین ‘ تعلیم کا حصول اور پلاسٹک شیٹ برائے شیلٹرس کے عوض جنسی استحصال کیاجاتا ہے۔

ٹائمز کی خبر کے مطابق جس کی رپورٹ تک رسائی ہوئی ہے کہ ‘ انکشاف کیا ہے کہ گونیا‘ سیرا لیون اور لائبریا کے پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے خاندان امدادی کارکنوں سے چھٹکارہ پانے کے لئے اپنی کم عمر بیٹی بھی پیش کرتے تھے۔

دی سن کے مطابق امدادی کارکن گونیاکے کیمپ میں عورتوں سے کہتے تھے کہ’’ ایک کیلو آٹے کے لئے سیکس‘۔یہاں پر کیمپ میں رہنے والوں کسی بھی عورت کو بناء اپنے جسم پیش کئے کبھی بھی اٹا دستیاب نہیں ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین( یو این ایچ سی آر) کو67امدادی کارکنوں کی فہرست پر مشتمل رپورٹ پیش کئے جانے کے باوجود اب تک اس پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔

ٹائمز کی خبر ہے کہ دس لوگوں کوبرطرف کردیاگیا مگر اس کی جانکاری خفیہ رکھی گئی۔۔ جن امدادی تنظیموں کے کارکنوں پر جنسی استحصا ل او ربدسلوکی کرنے کے الزامات لگے ہیں ان کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے واقعات کو سن کر ہی حیران ہیں۔ ایسی کوئی بھی حرکت ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے۔