القاعدہ کمزور ‘ لیکن خاتمہ کیلئے ہنوز کافی وقت درکار

کئی دہشت گردحملوں کی ذمہ داری قبول کرکے طاقت کا مظاہرہ ‘ دولت اسلامیہ القاعدہ کی جانشین بننے کوشاں
دبئی۔ یکم مئی ( سیاست ڈاٹ کام ) القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد القاعدہ ہنوز خاتمہ سے کافی دور ہے ‘حالانکہ اسے مسلسل ناکامیاں ہوئی ہیں۔ دولت اسلامیہ گروپ نے نامور عالمی جہادی طاقت القاعدہ کی جگہ لے لی ہے ۔ القاعدہ اس کے باوجود ایک اہم طاقت اور خوفناک خطرے کی حیثیت سے برقرار ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال چارلی ہبڈو پیرس میں قتل عام کے بعد اور مغربی افریقہ میں فائرنگ کی لہر چلنے کے بعد القاعدہ نے دکھا دیا ہے کہ وہ اب بھی قابل دید حملے کرنے کے قابل ہے جن پر اُس کی مخصوص چھاپ  ہو  ۔ شام اور یمن میں اس کے عسکریت پسندوں نے نمایاں علاقے پر قبضہ کرلیا ہے ‘ بلکہ خود کو دولت اسلامیہ کی بے رحم حکمرانی کے متبادل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ امریکہ کی خصوصی فوجوں نے 2مئی 2011ء کو پاکستان میں بن لادن کو ہلاک کردیا تھا ۔

القاعدہ کی بنیاد مرحوم نے 1980کی دہائی کے اوآخر میں رکھی تھی اس کو شدید نقصان پہنچا تھا ۔ اس کے کئی عسکریت پسند اور قائدین امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یا تو ہلاک کردیئے گئے یا گرفتار کرلئے گئے ۔ جہادیوں کی صفوں میں ناراضگی میں اضافہ ہوگیا کیونکہ القاعدہ کے نئے سربراہ ایمن الٰضواہری بن لادن کے سچے جانشین ثابت ہونے کی جدوجہد کررہے ہیں ۔ وہ قبل ازیں کئی شاخوں کے سربراہ رہ چکے ہیں ۔ بنیادی طور پر عراق کی شاخ القاعدہ کے سربراہ تھے جو بعد میں القاعدہ سے علحدہ ہوکر دولت اسلامیہ برائے عراق و شام میں تبدیل ہوگئی ۔ عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر 2014ء میں قبضہ کرنے کے بعد اس گروپ نے ان علاقوں میں جو اس کے زیر قبضہ تھے خلافت اسلامیہ کے قیام کا اعلان کردیا اور اپنے آپ کو دولت اسلامیہ قرار دیا ۔ اس وقت سے دولت اسلامیہ نے اپنے سابق شراکت دار کی اہمیت میں کمی کردی ہے ۔ ہزاروں جہادی اس کے مقصد کی تائید میں اس کے ساتھ شامل ہوگئے ہیںاور اس گروپ نے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی ہے جن میں بروسیلز ‘ پیرس ‘ تیونس ‘ ترکی ‘ لبنان ‘ یمن ‘ سعودی عرب اور مصر کی فضائی حدود میں روسی طیارہ کو مار گرانا شامل ہیں۔ خود ساختہ امیر ابوبکر البغدادی نے انتہا پسند گروپوں کو جو پورے مشرق وسطی میں اور اس کے باہر تھے متحد کر کے اپنے ساتھ شامل کرلیا ہے ۔