اقلیتی کمیشن کے ساتھ مودی حکومت کا معاندانہ رسلوک‘ ادارہ کی اہمیت نظر انداز

کمیشن میں 25جنوری کے بعد صر ف دو ارکان رہ جائیں گے‘ انصاف کی اہمیت پر کئی سوالات اٹھیں گے
نئی دہلی:قومی اقلیتی کمیشن کی اہمیت گھٹتی جارہی ہے ۔ اب اس کمیشن میں 25جنوری کے بعد صرف دو ارکان رہ جائیں گے۔

دراصل کمیشن میں 7ارکان کا ہونا لازمی ہے ۔ کمیشن کے موجودہ 3ارکان میں سے ایک رکن کی معیاد آئندہ ماہ ختم ہورہی ہے۔اس کے بعد کمیشن میں صرف دو ارکان ہوں گے او رکمیشن کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات ‘ انصاف پر کئی سوال اٹھ کھڑے ہوں گے۔

مرکز کی مودی حکومت کا قومی اقلیتی کمیشن کے ساتھ معاندانہ سلوک بڑھتا جارہا ہے۔کمیشن کے رکن کی حیثیت سے کیپٹن پروین داور کو کانگریس کی زیر قیادت یوپی اے ( دوم) حکومت میں رکن مقرر کیاگیا تھا‘ ا ب ان کے تین سال کی معیاد25جنوری کو پوری ہورہی ہے۔

دیگر چار ارکان بھی 9ستمبر 2015اور یکم ڈسمبر2016ء کے درمیان ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔پروین داور کے ریٹائرمنٹ کے بعد کمیشن میں ارکان کی تعدادصرف 2رہ جائے گی۔

ان میں چیرمن فہیم احمد اور رکن مستری شامل ہیں۔یہ پوچھے جانے پر کہ آیا کمیشن میں ارکان کی تعداد گھٹ جائے تو کام کا بوجھ بڑھنے سے کئی مسائل پیدا ہورہے ہیں ‘ کئی جائیدایں خالی ہیں۔ اس پر پروین داور نے کہاکہ بلاشبہ کام کابوجھ بڑھے گا۔

جب کمیشن نے ذمہ داری نبھانے کا عہد لیا ہے تو اس کی کارکردگی میں کوئی کمی نہیں آنی چاہئے لیکن ہاں کمیشن کے راکان کی تعداد کم ہورہی ہے تو فرق پڑیگا۔ ارکان کی تعداد مکمل رہے تو کام بہتر ہوگا۔

ہم پانچ ارکان کے ساتھ کام کاج کو بخوبی انجام دے سکتے ہیں‘ لیکن جب ارکان کی تعداد گھٹ جائے تو ہم مطلوبہ ضرورتوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے۔داور اس وقت 20ریاستوں سے ملنے والی شکایت سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔ اسکے علاوہ مرکز کے زیر انتظامیہ ریاستوں سے بھی شکایتیں موصول ہورہی ہیں۔

نسیم احمد پانچ ریاستوں اور دو مرکزی زیر انتظام علاقوں سے آنے والی شکایتوں سے نمٹ رہے ہیں۔ جبکہ مستری کو تین ریاستیں اور کئی مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی ذمہ داری دی گئی ہے۔جب کمیشن کی تعداد مکمل تھی تو ایک رکن 6تا7ریاستوں اور مرکزی زیر انتظامیہ علاقوں کی شکایت سے ازالہ کرتے تھے۔

ذرائع نے کہاکہ کمیشن نے اس مالیاتی سال کے دوران 1500شکایات سے نمٹنا ہے۔وزارت اقلیتی امور کی جانب سے 17جنوری کو جاری کردہ بیان کے مطابق قومی اقلیتی کمیشن کو اپریل اور ڈسمبر2016ء کے درمیان 1,288درخواستیں وصول ہوئی ہیں۔

اس کمیشن کی ایک اور بدبختی یہ ہے کہ اس کی مخلوعہ جائیداددوں پر تقررات عمل میں نہیں لایاجارہا ہے ۔ نئے ارکان کا انتخاب مکمل طور پر نذر انداز کردیاگیا ہے ۔ اگر کمیشن کے اندر تجربہ کارساتھی ہی نہ ہوں تو پھر شکایت سے نمٹنے کا معیار او رعمل ٹھپ ہوجائے گا۔