اقلیتوں کے خلاف جنگ بڑھ سکتی ہے۔ مولانا اسرارلحق قاسمی

گجرات کی انتخابی معرکہ آرائی میں بی جے پی کی بمشکل جیت اور کانگریس کی معمولی مارجن سے شکست ان دنوں جماعتوں کے لئے دلچسپ وعجیب اور غیرمعمولی کیفیت او رپیغام کی حامل ہے۔بی جے پی کو اس کی جیت بھی جہاں شکست جیسی بدمزگی کے احساس میں مبتلاکرچکی ہے وہیں کانگریس کی شکست بھی نہ صرف اس جماعت کو جیت جیسے مزے سے آشنا کررہی ہے ۔ بلکہ جو ش ولولہ سے بھر کر ایک نئی تحریک بھی بخش رہی ہے۔ دونوں جماعتوں کے لئے یہ خود احتسابی کا موقع ہے۔ اپنی خامیوں کی نشاندہی کرکے انہیں دور کرنے کا موقع ہے۔

بی جے پی نے خاص کر الیکشن میں ووٹ او رجیت حاصل کرنے کے لئے اورنگ زی او رپاکستان کے نام کی مالا جپی ‘ ملک کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ ‘ سابق نائب صدر حامد انصاری اور دیگر معززشخصیات پر ملک سے غداری کے بے بنیاد اور نازیبا الزام عائد کیا ‘ حسب معمول مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی۔ بی جے پی کے ارباب حل وعقد کو سوچنا ہوگا کہ ان بے سود باتوں سے وہ کب تاس ملک کے لوگوں کو بیوقوف بناکر اپنا الو سیدھا کرتے رہیں گے۔

ریاستی الیکشن میں اس کی کمزور کارکردگی نے نہ صرف اس کی خامیوں ‘ غفلتوں اور کوتاہیوں کو اجاگر کیاہے بلکہ وزیراعظم کی ناقابل تسخیر او ربے مثال ووٹ حاصل کرنے والی شبہیہ کو بھی زبردست نقصان پہچایاہے۔ اور 2019کا پارلیمانی الیکشن کا مقابلہ اس کے لئے توقعات سے کہیں زیادہ کٹھن ہوگا۔ نیز اسے پہلے کے مقابلے زیادہ پر امید اور پر اعتماد کانگریس کی زیرقیادت اپوزیشن سے اپنا اقتدار محفوظ منظم کوشش کرنے کی ضرورت ہوگی۔

دوسری طرف کانگریس نے سافٹ ہندوتوا کا شیوہ اختیار کرتے ہوئے جس مندر وں کے چکر کاٹنے کا عمل شروع کیاہے اس سے مقابلے میں اپنے حریفوں کوپیچھے چھوڑنے دینے کا چلن اختیار کیا ‘وہ اس کی روایتی اور اصولی روش سے ہٹ کر تھا اور سود مند تو بالکل نہیں تھا۔مندروں میں پوجا کرنا بھی عقید تمند ہندو کے لئے اچھی بات ہے لیکن ووٹ کے مقصد سے ایسا کرنا بھی بھولے بھالے لوگوں کو بیوقف بنانے کے زمرے میں ہی شمار کیاجائے گا۔

تاہم اس الیکشن میں بہتر کارکردگی سے اسے جو حوصلہ ملا ہے وہ یقینی طور پر اس کے لئے آئند ہ ہونے والے ریاستی اورپارلیمانی انتخابات میں بہتر امکانات کا اشارہ دے رہے ہیں۔ راہل گاندھی نے مودی اور امیت شاہ کی قیادت میں بی جے پی او رآر ایس ایس کی فوج کا بڑی فوج کا دانشمندانہ اور دانشوارانہ انداز میں اتنی کامیابی سے مقابلہ کیا کہ ہارکے باوجود اصل جیت کانگریس ہی قراردی جارہی ہے ۔

اس بیچ انہیں پارٹی کا صدر بھی بنادیاگیا ہے ۔ اس سے کانگریس کی نئی قوت اور جوش کے ساتھ ائندہ ریاستی انتخابات او رپھر پارلیمانی انتخابات میں اپنا دائرہ اثر بڑھانے کا موقع ملے گا۔اب دیگر علاقائی سکیولر جماعتوں کو بھی کانریس سے انتخابی تال میل کرنے اور کانگریس کی قیادت میں ایک محاذ یا االائنس قائم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے‘ کیونکہ گجرات میں اپنی کارکردگی کے ذریعہ پارٹی بی جے پی کے متبادل کے طور پر ابھرنے میں کامیاب رہی ہے ۔

سیکولر جماعتوں کے اتحاد سے یقینی طور پر بی جے پی کو زیادہ بہتر طور پر چیلنج کیاجاسکے گا۔ گجرات کے ہی الیکشن نتائج کے بعد جو تجزیہ سامنے ائے ہیں ان کی روشنی میں بجا طور پر یہ محسوس کیاگیاہے کہ اگر کانگریس ‘ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی او ربہوجن سماج پارٹی کے مابین اتحاد قائم ہوجاتا ہے تو کانگریس دس اور سیٹیں جیت سکتی تھی۔جہاں تک ان انتخابی نتائج کے پیغام کا تعلق ہے تو بی جے پی کو سمجھ لینا چاہئے کہ ریاست میں دودہائیوں سے بھی زیادہ کے اقتدار کی طاقت ‘ ترقی کے گجرات ماڈل کے بلند وبانگ دعوے ‘

وزیراعظم مودی کی آبائی ریاست ہونے کے فائدے جہاں کے وہ وزیراعلی بھی رہ چکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ اصرار کے مرکز او رریاست میں ایک ہی پارٹی کی حکمرانی ہوتو ترقی کی رفتار کئی گناہ بڑھ جاتی ہے ‘ وزیراعظم جیسے سوپر اسٹار الیکشن مہم چلانے والی اور مقرر کی ریاست کے طول وعرض پر محض پندرہ دنوں کے اندر 34ریالیاں میں دھواں دھار تقریریں ‘ ان کی ناقابل تسخیر ہونے کی امیج او ردعوے ‘ ایک درجن سے زائدمرکزی وزراء کے لگاتا ر جلسے اوربھاشن ‘ آر ایس ایس اور اسکی تمام ذیلی تنظیموں کی شب وروز کوششیں اور محنت کے باوجود اس نے ریاست کی کل 182سیٹوں میں سے 150سیٹیں جیتنے کا جو نشانہ مقرر کیاتھا وہ محض 99پر اٹک گیا اورجو بمشکل جیت حاصل ہوئی اسکا واضح پیغام یہی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے گھر یعنی گجرات کے لوگ اب بی جے پی پر اعتبار نہیں کررہے ہیں ۔

ان کے کاموں ( نوٹ بندی او رجی ایس ٹی) سے خوش نہیں ہیں‘ وعدوں کی تکمیل سے نالاں ہیں اور اقتدار کے نشے میں بدمست ہوکر ملک میں فرقہ واریت کا جوکھیل حکمراں جماعت اور کے حواریوں نے شروع کیااسے ناپسندکررہے ہیں اس کے باوجود اسے اصلاح اور بھول سدھار کا موقع دے رہے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیابی جے پی اپنا کردار اور رنگ ڈھنگ بدلے گی؟۔معمولی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے بھی اس کاجواب نفی میں ہی دیں گے۔

ماہرین نے تو ابھی سے ہی یہ اندیشہ ظاہر کرنا شروع کردیا ہے کہ اب جبکہ گجرات میں جیت حاصل ہوچکی ہے ‘ مسلمانوں او راقلیتوں کے خلاف بی جے پی کی جنگ کئی گنابڑھ جائے گی۔ بی جے پی گجرات کے الیکشن میں نہ صرف ملک کے مختلف مسائل جیسے مہنگائی ‘ بیروزگاری ‘ نوٹ بندی او رجی ایس ٹی سے پیدا شدہ مسائل کو دور کرنے کے موضوعات پر گفتگو کرنے سے گریزاں رہی بلکہ وکاس کے اپنے مستقل موضوع کو بھی پس پشت ڈال دے گی۔

بدعنوانی کا موضوع بھی انتخابی منظر سے پوری طرح غائب رہا۔ بی جے پی نے پہلے گجرات اور گجراتیوں کی اسمتا یعنی خوداری اور عزت نفس او روقار کا موضوع بحث بنایاتھا لیکن عوام کا اس معاملے میں خاطر خواہ اثر نہ دیکھ کر اس نے مسلم دشمنی کے اپنے آزمودہ ہتھیار کا پرزور طریقہ سے استعمال کرنا شروع کردیا۔

اس سے قبل اترپردیش کے اسمبلی انتخابات کے دوران بھی بی جے پی نے مسلمانوں کا منفی انداز میں تذکرہ کرکے ہی ہندو وٹوں کی فصل کاٹی تھی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ خود وزیراعظم مودی نے فتح پور کی ایک ریالی میں کہاتھا کہ اگر گاؤں میں قبرستان بنتا ہے تو شمشان بھی بننا چاہئے ‘ رمضان میں بجلی ملتی ہے تو دیوالی میں بھی ملنی چاہئے ۔ اس وقت ان کے اس جملے کو فرقہ وارانہ سیاست میں مودی کی گھر واپسی قراردیاگیاتھاتلخ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی او رمودی مسلم دشمنی کے موضوع سے کبھی ترک تعلق کیاہی نہیں ہے کیونکہ یہی موضوع ان کی جھولی میں ووٹ ڈالونے میں سب سے بڑا معاون اور مددگار ثابت ہوتا رہا ہے ۔

گجرات میں بھی مودی او رامیت شاہ جیسے قد آور لیڈروں نے راہو ل گاندھی او رکانگریس کا ذکر کرنے کے لئے مغلوں او رپاکستان کا تذکرہ کیا۔ ملک کے تمام لوگ جانتے ہیں کہ بی جے پی جب مغلوں او رپاکستان کا ذکرکرتی ہے تو اس کا مطالب ‘ اشارہ او رنشانہ ملک کے مسلمان ہوتے ہیں جن کی موجودگی کا خوف عام ہندوؤں کو دکھاکر انہیں بیوقوف بناتی ہے اور اپنا الو سیدھاکرتی ہے۔

مغل حکمرانوں کے مبینہ الزامات کومسلمانوں سے جوڑتی ہے اور عام ہندوؤں کو یہ باور کراتی ہے کہ ہندو مذہب اور قوم پر مسلم حکمرانوں نے بڑے مظالم ڈھائے تھے اور ان کی عبادت گاہوں تک کو مسمار کیاتھا۔ راہل گاندھی کو جب پارٹی کا سربراہ بناگیا تو اسے مودی نے اورنگ زیب راج قراردیا۔