اقلیتوں کو مرکزی حکومت کے عام بجٹ سے مایوسی ہوئی۔

انسٹیٹوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈوکیسی کے زیر اہتمام منعقدہ سمینار سے مقررین کا خطاب
نئی دہلی۔ مسلم ایجوکیشنل ٹرسٹ کے ہال میں آج انسٹیٹویٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈوکیسی کے زیر اہتمام عام بجٹ اور اس میں اقلیتوں کا حصہ کے موضوع پر ایک سمینار کا انعقاد کیاگیا‘ جس میں مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ سمینار میں مقررین نے اقلیتوں کے لئے بجٹ اور حکومت کی پالیسیوں کا تجزیہ کیا۔اس بجٹ میں اقلیتوں کا بجٹ‘ کل بجٹ کا 0.2فیصد ہے جبکہ ملک کی کل آبادی میں ان کا تناسب 21فیصد ہے ۔

اس عام بجٹ میں وزارت برائے اقلیتی امور کے لئے پچھلے سال کے مقابلے پانچ سو کروڑ کا اضافہ کیاگیا ہے جبکہ حکومت کا یہ دعوی تھا کہ حج سبسڈی ختم کرکے لگ بھگ چھ سو کروڑ روپئے مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے لئے دیاجائے گا مگر بجٹ میں اس کوکوئی ذکر نہیں ہے۔

حکومت 2016-17میں اقلیتوں کے لئے مختص کیے گئے بجٹ کا صرف74فیصد حکومت خرچ کرسکی ہے جس سے اسکالر شپ ‘ متعدد جہاتی ترقیاتی پروگرام اور دیگر پروگراموں کے نفاذ اور کارکردگی میں گروٹ ائی ہے۔انسٹیٹوٹ آف پالیسی اسٹاڈیز اینڈ ایڈوکیسی کے ڈائرکٹر جاوید عالم نے کہاکہ وزرات برائے اقلیتی امور کے علاوہ وزیر اعظم کے نئے پندرہ نکاتی پروگرام پر زیادہ غور کرنا چاہئے ‘کیونکہ اس سے اقلیتوں کو بڑے ترقیاتی پروگراموں میں زیادہ شرکت کا موقع ملے گا۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ موجودہ حکومت پندرہ نکاتی پروگرام کا اہم حصے جیسے مسلمانوں کو حکومتی اداروں میں روزگار کے مواقع ‘ آربی ائی کے ذریعہ دی جانے والی کریڈیٹ کی سہولت فرقہ وارنہ تشدد بل پر کوئی توجہہ نہیں د ی گئی ہے ‘ اسی طرح اسکالر شپ کی رقم میں اضافہ کی سفارش کو بھی نظر انداز کردیاگیا۔سراسکشا ابھیان کے ڈائرکٹر عابد رسول کا کہنا تھا کہ بجٹ الاٹمنٹ کے ساتھ مسلم کمیونٹی کو بجٹ دینے کی ضرورت ہے ۔

بجٹ پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر وقار انور نے اس بات پر زوردیا کہ موجودہ حکومت صرف اعلانات کررہی ہیں جبکہ اس کو ساتھ میں اسکیموں کے بجٹ اور اس کے نفاذ کے طریقہ کار او رعمل میں لانے کی مدت کو بھی بتانا چاہئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ بجٹ ریسرچ او رایڈوکیسی میں اپنے رول کو مزید بڑھاے کی کوشش کریں۔