اقلیتوں اور دلتوں میں اتحاد و اتفاق وقت کی اہم ضرورت

ووٹ کی اہمیت کو سمجھنے پر زور، ٹی ماس ساؤتھ زون کمیٹی کا قیام، ظہیرالدین علی خان و دیگر معززین کا خطاب

حیدرآباد۔28اگست(سیاست نیوز)ریاست تلنگانہ میں پسماندگی کا شکار طبقات کی آبادی کا تناسب93فیصد سے زیادہ ہے مگر آزادی کے بعد سے لیکر اب تک پسماندہ طبقات کی نمائندگی کرنے والی کسی بھی قیادت کو اقتدار نہیںملا اسکی وجہہ پسماندگی کاشکار ایس سی ‘ ایس ٹی ‘ بی سی اور اقلیتوں کے درمیان میںاتفاق واتحاد کافقدان ہے ۔ پسماندہ طبقات کے ووٹوں سے اقتدار پر فائز ہونے والی قیادتیں آج ہزاروں کروڑ کے مالک ہیںجبکہ انہیںووٹ دینے والوں کی آبادی کا بڑا حصہ دووقت کی روٹی اور سرچھپانے کے لئے چھت سے محروم ہے ۔ حالات او ر وقت کی تبدیلی کے باوجود پسماندگی کا شکار طبقات میںاتحاد واتفاق کی کمی کا فائدہ سات فیصد آباد ی پر مشتمل سیاسی قائدین اٹھارہے ہیںاور ہماری سیاسی طور پر نمائندگی کے دعویدار لوگ حکمرانوں کے ہاتھوں کی کٹ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ آج یہاں مادنا پیٹ میں ٹی ۔ ماس(تلنگانہ ماس اینڈ سوشیل آرگنائزیشن فورم) کی حیدرآباد ساوتھ زون کمیٹی کے قیام کے موقع پر منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جناب ظہیر الدین علی خان نے ان خیالات کا اظہار کیا۔سی پی آئی ایم تلنگانہ اسٹیٹ سکریٹری ٹی ویر ا بھدرم‘ پروفیسر کانچہ ایلیا‘ مولانا حامد حسین شطاری‘ویملا اکا صدر ٹی یو ایف‘داس رام نائیک‘ جے بی راجو‘ محترمہ جمیلہ نشاط ، جناب نعیم اللہ شریف‘ جناب اقبال جاوید‘ جناب عبدالقدوس غوری‘ جناب محمد عباس‘ مسٹر دھرما نائیک کے علاوہ بائیںبازو تحریکوں سے جڑے سماجی کارکنوں اور سیاسی قائدین نے بھی خطاب کیا۔ مسرس ایم اے ستار‘ مہناج قریشی‘ محمد کلیم الدین‘ محمد بابر خان‘ حسن فاروقی‘ شوکت علی‘ عبدالطیف کے علاوہ دیگر نے جلسہ کے کامیاب انصرام میںاہم رول ادا کیا۔ جناب ظہیرالدین علی خان نے کہاکہ ہمیںاپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ووٹ ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور پیسوں کے لالچ میںاس کا استعمال ہمیںپانچ سالوں تک پریشان حال زندگی گذارنے پر مجبور کردیگا جو پچھلے ساٹھ سالوں سے ہوتا آرہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم متحد ہوجائیںاور پسماندگی کاشکار طبقات میں سے کسی ایک کو اقتدارپر بیٹھانے کا منصوبہ بنائیں۔ ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی کہ ملک کے کسی بھی کونے میںاگر کسی دلت پر ظلم ڈھایاجاتا ہے تو تمام مسلمان دلتوں کے ساتھ ملکر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیںاور اگر ملک کے کسی کونے میں مسلمانو ں کو نشانہ بنایاجاتاہے تو دلتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسلمان کی آواز بن جائیں۔ ایک بار ہمارے درمیان اتحاد قائم ہوگیا تو سارے ملک میں اونا اور دادری جیسے واقعات دوبارہ رونما نہیںہونگے۔تلنگانہ سے سوشیل انجینئرنگ کی شروعات وقت کی اہم ضرورت بنی ہوئی ہے۔ انہو ںنے اس موقع پر ٹی ماس کے قائدین کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ٹی ماس کے قیام کے مقاصد کی تکمیل کے لئے نیک تمنائو ں کا بھی اظہار کیا۔مسٹر ٹی ویر ابھدرم نے ہجوم کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں جو نفرت کاماحول پیدا کیاگیا ہے اس پر قابو پانے کے لئے مرکزی او رریاستی حکومتو ںکی جانب سے موثر اقدامات کی کمی ہے۔ مسلم اقلیت پر ڈھائے جانے والے مظالم کی روک تھام میںمرکزی اورریاستی حکومتیں پوری طرح ناکام ہوگئی ہیں۔ ملک کے وزیراعظم سے مسلمانوں کو بھی کافی توقعات ہیںمگر انہو ںنے کبھی بھی مسلمانوں کے فلاح وبہبود میںبات نہیں کی ۔ یہی حال تلنگانہ کا بھی ہے جہاں پر مسلمانوں اور ایس سی‘ ایس ٹی ‘ بی سی طبقے کے جذبات سے کھلواڑ کیاجارہا ہے۔ جبکہ یہاں پر جمہوری حقوق کو سلب کرنے کی کوششیںکی جارہی ہیں۔ اظہار خیال کی آزادی کو ختم کرنے کے لئے دھرنا چوک کو برخواست کرنے کی سازشوں پر اگر کوئی احتجاج کرتاہے تو جیل میںبند کرنے اور پولیس کے ذریعہ اس کو ہراساں وپریشان کرنے کاکام کیاجارہا ہے۔ ویر ا بھدرم نے کہاکہ بائیںبازو کی جانب سے اس بات کی پہل کی جارہی ہے ۔ ٹی ماس کے قیام کا مقصد اقلیتوں او ردیگر پسماندہ طبقات کے حقوق کی سیاسی لڑائی کو منزل تک پہنچانا ہے۔پروفیسر کانچہ ایلیا نے اپنی تقریر میںکہاکہ آج مسلمانوں کے کھانے پینے پر روک لگانے کی کوششیں کی جارہی ہے جبکہ اسلام نے ہی دنیاکو کھانے پینے او رکپڑے پہننے کا طریقہ سیکھا ہے۔آج سارے ملک میںدلتوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنایاجارہا ہے ۔ جب تک ہمارے درمیان میںاتحاد قائم نہیںہوتا تب تک ہم اسی طرح فسطائی طاقتوں کے ہاتھوں نشانہ بنتے رہیں گے۔ کانچہ ایلیا نے کہاکہ مسلم خواتین کے ساتھ انصاف کے نام پر مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی جارہی ہے جبکہ ہند وسماج میں دلت عورتوں کے ساتھ جوسلوک کیاجاتا ہے اس پر کوئی کاروائی کیوں نہیں کی جاتی۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ دلت عورتوں کو مندر میںپوجا کرنے کی اجازت دیں ‘ ان کے ساتھ ہونے والی عصمت ریزی کے واقعات پر روک لگائیںاس کے بعد مسلم خواتین کی فکر کریں کیونکہ مسلم خواتین ایک منظم اور مکمل مذہب کے پیروکار ہیں۔انہوں نے کہاکہ آر ایس ایس ذہنیت کے لوگوں کا نظریہ ڈیرا سچا سودا کے سربراہ گرومیت رام رحیم واقعہ کے بعد منظرعام پر اگیا ہے۔ عصمت ریزی کے مرتکب مجرمین کو زیڈ زمرہ سکیورٹی فراہم کرنا ان کا نظریہ ہے۔ویملا اکا نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ہجوم کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتیں اور مائوسٹوں کے نام پر چھتیس گڑھ سے لیکر تلنگانہ کے قبائیلی علاقوں میںپیش آنے والے فرضی انکاونٹر جمہوری نظام کے نام پر سب سے بڑا داغ ہیں۔ ویملا نے اس موقع پر گائو کشی کے نام پر ملک بھر میںجاری بربریت پر ایک انقلابی گیت پیش کیا او رکہاکہ کھانا پینا‘ پہننا ہر ہندوستانی کا جمہوری حق ہے اس کے متعلق ہمیں فسطائی طاقتوں کے سبق کی ضرورت نہیں ہے ۔دیگر مقررین نے بھی ٹی ماس کے ساوتھ زون یونٹ کے قیام پر منتظمین کو مبارکباد پیش کیا۔اروندیا اور پرجا ناٹاکالا منڈلی کے کارکنوں نے انقلابی گیت او ررقص پیش کیا۔