اف یہ نفرتوں کا زہر۔ الیاس شمسی

وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کے دریاؤں کو جوڑنے کا منصوبہ2014میں ملک کے سامنے پیش کیا‘لیکن ان کے سونچنے سے دوسال پہلے1812میں اودھ کے حکمراں نواب غازی الدین حیدر نے گنگا گومتی سے جوڑنے کا پلان بنایاتھا لیکن اس وقت کے انجینئرس کو نہیں معلوم تھا کے انناؤ کے مقابلے میں لکھنو اونچائی پر ہے ‘ اس لئے چھ لاکھ روپئے ( آج کے چوبیس کروڑ) سے بنا وہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ لکھنومیں اب بھی نہر غازی الدین حیدر کو دیکھا جاسکتا ہے لیکن اب وہ نہر نہیں ایک نالہ ہے جو شہرکی گندگی کوگومتی میں انڈیلتا ہے۔

غازی الدین حیدرچاہتے تھے کہ لکھنو کے ہندوؤں کو اسنان کرنے کے لئے انناؤ اور کانپور کے درمیان بہنے والی گنگا تک نہ جانا پڑے میں سوچتا ہوں اگر اس وقت آج کل جیسے بھکت ہوتے تو یہی کہتے کہ اس نہر کا قیام ہندو ؤں کو ڈبونے کے لئے کیاجارہا ہے اگر اس وقت تنگ ذہن بھگوا دھاری ہوتے تو یہی کہتے کہ یہ کوئی بڑی سازش ہے۔ میں ایسا اس لئے کہہ رہاہوں کہ ہندوستان میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے لگائی گئی سبیل پر کچھ بھکتوں نے اسی قسم کا اعتراض کئے ہیں۔

واقعہ یو ہے کہ رائے پور کی ایک مسلم تنظیم نے وہاں کے اسٹیشن پر پانی کا کولر لگوایا تاکہ وہاں سے گذرنے والے مسافر ٹھنڈے پانی سے اپنی پیاس بجھاسکیں ‘ یہ پانی صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص نہیں تھا ہر انسان کا استعمال کرسکتا تھا مگر چونکہ اس واٹر کولر پر اس مسلم تنظیم کا نام بھی لکھاہوا تھا تو اس پر تنگ نظر بھکتوں نے اعتراض جتادیا اور اس کو ’جل جہاد ‘‘ سے تعبیر کیا۔

چونکہ اس کولر پر لکھاتھا کہ ’’جب کبھی پانی پیجئے تو حسینؓ کی پیاس کو یاد کیجئے‘‘بس بھگوا دھاریوں کو یہی بات ناگوار لگی اور ایک بھکت نے ٹوئٹر پر سوال اٹھایا کہ پانی پی کر ہم رام کو کیوں نہ یاد کریں؟اتنا ہی نہیں پانی کی مشین لگانے کو ہندوتوا کے خلاف بڑی سازش سے تعبیر کیاگیا اور سوشیل میڈیا پر کہاگیا کہ ’’ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک جہادی نے کہاتھا کہ کمبھ میلے کے دوران پانی میں زہر ملادیاجائے اس لئے ممکن ہے کہ یہ بھی ہندوؤں کی جان لینے کی کوئی سازش ہو‘‘۔

اس کے بعد تو سوشیل میڈیا پر جیسے بھونچل آگیا اور مسلسل زہر آلود تبصرے کئے جانے لگے جس کے بعد ریلوے کی وزرات نے اس کولر لکھے ہوئے تنظیم کے نام’ حسینؓ کون ہیں‘سمیت ساری عبارتوں کو مٹادیا‘ لیکن تنظیم نے وہ کولر ہٹایا نہیں کیونکہ ان کا کہناتھا کہ ہمارا مقصد پیاسے مسافر وں کو پانی پلاکر ثواب حاصل کرنا ہے۔ ویسے تو یہ بات صحیح ہے کہ ثواب کے کسی کام میں نام ونمود کی ضرورت نہیں لیکن یہ سونچنے کی ضرورت تو ہے کہ فرقہ پرست ٹولہ ملک کو کس طرف لے جارہا ہے؟یہی وہ ہندوستان جہاں ہزاروں ہندو امام حسین کے نام پر تعزیہ رکھتے ہیں۔

شہر شہر محرم کے درمیان سبلیں لگاکر اپنے مسلم بھائیوں کے پیاس بجھاتے ہیں۔ ہندوؤں کی بنوائی ہوئی کربلائیں اور امام باڑے آج بھی ہندوستان کے طول وعرض میں موجود ہیں۔ امام حسین سے اہل ہنود کی محبت کی ایک وجہہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب امام حسین کو یزید کی فوج نے کربلا میں گھیر تو امام نے لشکر کے کمانڈر شمر ذی الجوش کے سامنے جو شرائط رکپتی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ان کو یزید کی سلطنت سے باہر چلاجانے دیاجائے۔

اسی روایت کی وجہہ سے یہ بات بہت مشہور ہوگئی کہ امام حسینؓ عراق سے ایران او روہاں سے بلوچستان کا راستہ طئے کرکے بلوچستان کے اس وقت کے حکمراں راجہ داہر کے والد راجہ چندرکی پناہ میں آنا چاہتے تھے کیونکہ وہاں پہلے سے ہی کئی مسلمان پناہ لئے ہوئے تھے۔

کئی ہند وشعراء نے بھی اس سلسلے میں اشعار کہے اور اس بات پر فخر بھی کیاکہ امام حسین ہندوستان میں بسنا چاہتے تھے مگر اب ایک سخت گیر طبقے کی خواہش ہے کہ محبت اور عقیدت کی یہ عبارت کو مٹاکر منافرت کے جملے تحریر کئے جائیں ‘ لیکن ان لوگوں سے ٹکراؤ مناسب نہیں کیونکہ یہ لوگ ملک میں بدامنی پھیلانے کے لئے ہی مقرر کئے گئے ہیں ہم کو تو یہی کوشش کرنا ہے کہ عام ہندو او رعام مسلمان کے درمیان کشیدگی پیدا نہ ہونے پائے۔