افرازالاسلام کے قتل کے بعد جائے حادثے سے سارے ثبوت جان بوجھ کر برباد کردئے گئے۔ حقائق سے آگاہی کمیٹی کی رپورٹ

راجستھان کے راجسمند میں ہونے والا بہیمانہ قتل ایک قتل ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے بدلتے ہوئے منظرنامے کی ایک او ر کڑی ہے۔ پیپلس یونین آف سیول لبرٹریز ‘مزدور کسان شکتی ‘ سنگھٹن او رامن برداری کی ایک حقائق سے آگاہی کمیٹی ٹیم نے جائے واردات اور راج نگر قصبے کا دورہ کیاجس کی رپورٹ ابھی میڈیا میں جاری نہیں کی گئی البتہ اس کا خلاصہ قارئین کی نذر کیاجارہا ہے۔ہرش مندر‘ جان دیال اور کویتا شرایوستو۔
ماربل کا ٹوٹا ہوا سلیب : پولیس تفتیش کاروں کے ذریعہ استعمال کے بعد پھینکے گئے سرجیکل گلوز( دستانے) اور کپوجی کتے ‘ یہ راجستھان میں راجسمند ضلع کے راج نگر علاقہ میں اس جگہ کا نظارہ ہے جہاں6ڈسمبر کو شمبھو ل ریگر نے افرازالاسلام خان کو کلہاڑی سے بری طرح مارا ‘ اس کا سرقمل کرنے کی کوشش کی اور پھر زندہ جلادیا۔

یہ وہی دن تھا جس دن سنگھ پریوار کے کارکنوں نے یہاں سے کافی دوری پر یوپی کے ضلع ایودھیا میں پچیس سال قبل بابری مسجد شہید کی تھی۔اس دن کو سنگھ پریوار ’ شوریہ دیوس‘( یوم فتح) کے طور پر مناتا ہے۔جائے واردات پولیس اسٹیشن اور کلکٹر کے دفتر سے ایک کیلومیٹر سے بھی کم کی دوری پر اور ہائی وے اور شادی کے ایک ہال س چند سو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ پولیس نے ثبوتوں کے تحفظ کے لئے اس علاقے کی نہ گھیرا بندی کی اور نہ ہی اسے سیل کیا ہے اس لئے سارے ثبوت جان بوجھ کر برباد کردئے گئے ۔

ہمیں اس جگہ جہاں افرازالاسلام کو زندہ جلادیاگیا تھا‘ چند آوارہ کتے نظر ائے جو آگ کے سبب کالے پڑچکے پتھروں کو سونگھتے پھر رہے تھے۔ ہماری روح کانپ گئی اور پیٹ کی کیفیت عجیب سی ہونے لگی۔ ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی او رہم نے خو روپودوں کے چند پھول اکٹھا کئے اوراس جگہ رکھ دئے جہا ں وہ شخص جسے قتل کیاگیا گھٹنو ں بل بیٹھ گیاتھا یہاں اس کی یادیں اب بھی موجود تھیں۔ملک کے دیگر علاقوں کی طرح راجستھان میں بھی گذشتہ تین برسوں میں ہجومی تشدد‘ نفرت پر مبنی جرائم او رپولیس کے ذریعہ اقلیتوں کو نشانہ بناکر انجام دی گئی وارداتوں کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔اب یہ کم وبیش معمول کا حصہ بن چکے ہیں جو عوام کی توجہہ اور جانچ پڑتال سے بچ جاتے ہیں۔

مگر 6ڈسمبرکا واقعہ خاص طور پر خون کو منجمدکردینے والا تھا۔ اس کی جس احتیاط سے منصوبہ بندی کی گئی تھی‘ جس طرح کسی شخص کو کسی اور جرم کی بنا پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اس کی مذہبی شناخت کی بناء پر نشانہ بنایاگیا تھا اور جس طرح 14سال کے ایک بچے نے اس واقعہ کی ویڈیو گرافی کی تھی یہ سب کچھ ایسی وجوہات ہیں جو دہلاکررکھ دیتی ہیں۔یہ جرم اس بات کا پتہ دیتا ہے اور ہماری فوی توجہہ کا متقاضی ہے کہ کس طرح ہماری دیہی اور شہری آبادی انتہا پسندی کا شکار ہورہی ہے اور ان کے ذہنوں پر اس کا اثر کتنا گہرا ہوتاجارہا ہے۔حد تویہ ہے کہ بچے بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔

یہ قتل راج نگر کے ایک چھوٹے سے قصبے سے ہوا جو راجسمند ضلع کا ہیڈکوارٹر ہے اور اودئے پور سے محض 100کیلومیٹر کی دوری پر ہے۔اب تک یہ علاقہ تھوڑا بہت جانا جاتا تھا تو قریب ہی واقع ناتھ دوار مندر ‘ ماربل پتھروں کے گوداموں اور اس کے اطراف ادئے پور جانے والی ہائی وے پر قائم پتھر کو پالش کرنے والی فیکٹریوں کی وجہ سے جانا جاتاتھا۔پیپلسں یونین آف سول لبرٹیز ‘ مزدور کسان شکتی سنگھٹن او رامن برادری کی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے اس علاقے کا دورہ کیا۔ آگے جو آپ پڑھیں گے اور ان کی اس رپورٹ کا خلاصہ ہے جو ابھی میڈیا کو جاری نہیں کی گئی