اعلی احکامات

حادیہ کے کیس میں فیصلہ کمیونٹی اور خاندان کی درخواست کے خلاف ہر فرد کے لئے ایک مضبوط فاع ہے
تقریبا ایک سال قبل ہندوستانی شہریوں کے حقوق خاص طور پر اگر وہ ایک عورت ہے تو اس کے زندگی گذرنے کی آزادی کے متعلق ایک حساس فیصلہ کیرالا ہائی کورٹ( ایچ سی) نے دیا تھا۔

مذکورہ عدالت نے ایک 24سالہ بالغ لڑکی ہادیہ کی شادی کو یہ کہتے ہوئے کہ ’’ وہ کمزور اور ناسمجھ ہے‘‘منسوخ کردیااور یہ بھی کہاتھا کہ ’’ اس کی زندگی میں شادی نہایت اہمیت کاحامل فیصلہ ہے۔ او ریہ والدین کی پوری سرگرمی کے ساتھ شمولیت کے بعد فیصلہ لیاجانا چاہئے‘‘۔

پچھلے ماہ سپریم کورٹ( ایس سی) اپنے جزوی احکامات میں ایچ سی کے فیصلے کو مستر کردیاتھا۔ پیر کے روزاپنے غیرمعمولی اور قابل خیرمقدم فیصلے میں ایس نے سختی کے ساتھ اس بات کو دوہرایا ہے کہ انفرادی طور پر دونوں کو اپنی زندگی کے راستے اختیار حاصل ہے ‘چاہئے وہ مذہب کی بات ہو اور چاہئے وہ اس فرد کی بات ہو جس سے وہ شادی کی متمنی ہے۔

ان دونوں علیحدہ مگر ہم آہنگ فیصلے سے ایک جس میں چیف جسٹس دیپک مشار اور جسٹس اے ایم خانویلکر اور دوسرے فیصلے میں جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ ہیں نے فیصلے سنایا ہے ‘ مذکورہ عدالت نے اس راستے کو پوری طرح نظر انداز کردیا جس پر چلتے ہوئے ایچ سی نے’’ حقیقت میں غیرضروری ‘‘ احکامات کو پور ا کرنے کے لئے ’’ غلط طریقے سے ہدایت ‘‘۔

عدالت نے کہاکہ ’’ یہ ہائی کورٹ کے دائر کار کا حصہ نہیں تھا کہ وہ ہادیہ کی زندگی میں مداخلت کرے‘‘۔ہادیہ کے والد نے ہائی کورٹ میں یہ درخواست رحم پیش کرتے ہوئے الزام عائد کیاتھا کہ اسلام کے شر پسند عناصر نے اس کی ذہن کی سازی کرتے ہوئے اس مذہب اسلام اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے

۔مذکورہ عدالت نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ’’ عقائد او رعقیدے کا معاملہ ہویا پھر شادی کا اختیار کامعاملہ ہو ان علاقوں میں جھوٹ نہیں بولا جاسکتا کیونکہ یہاں پر خودمختاری اہم ہے۔یہ دستور کے تحت دی گئی آزادی ہے‘‘۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ معزز عدالت کے اس بات کو لاگوکرنے کے لئے تقریبا ایک سال کے قریب تک کا فیصلہ لگا۔ اس وقت کے کچھ معمولی حصہ کے لئے ہادیہ کو جبری طور پر اپنے شوہر سے علیحدہ کرکے والدین کی تحویل میں دیدیاگیا۔

اس فیصلے کے بعد عدالتوں کی مقرر حد پار کرنے کی بات کو بھی تسلیم کیاجارہا ہے۔

مذکورہ ماہ جس میں ہادیہ کھوگئی ‘ اس کی مرضی کے خلاف والد کی تحویل میں بھیج دی گئی واپس نہیںآنے دیا گیا۔اس فیصلے کی وجہہ یہ بھی ہے کہ عدالت پر اس با ت کی ذمہ داری عائد ہے کہ وہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی پابند ہے‘‘