کلکتہ۔نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات امریتا سین نے ہفتہ کے روز کہاکہ ہندوستان میں اقلیتیں اور آزادنہ سونچ کی حامل طاقتیں جو موجودہ حالات میں خود کو منقسم محسوس کررہی ہیں‘ ان کے لئے زیادہ زبانی اور سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔
ملک کے موجودہ رحجان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سین نے کہاکہ جو اکثریت کی تشکیل کے بغیر ملک پر حکومت کررہے ہیں‘ مگر وہ طاقت میں سیاسی نظام کے حربوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رہتے ہیں۔
سین ایک مباحثہ جس کا عنوان ہندوستان کی جمہوریت کس طرف گامزن کے عنوان سے خطاب کررہے تھے ‘ جس میں انہوں نے کہاکہ’’ میں سمجھتا ہوں کہ آج کے ماڈرن دور میں اقلیت او راکثریت کا تعان کون ہندو ہے اور کون مسلمان کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہئے‘ کیونکہ یہ واضح نہیں ہے کون ہندو ہے‘‘۔
’’ حقیقت میں دلتوں اور اقلیتوں کی تعداد بہت کم ہے۔مگر یہ بھی حقیقت ملک میں جو لوگ اقتدار میں ہے وہ بھی اعداد وشمار کی مناسبت سے اکثریت میں نہیں ہیں‘ مگر اقتدار کی وجہہ ملک کا سیاسی نظام ہے‘‘۔سین کے مطابق اگر مردہ شماری کو قبول کیاجائے تو پھر ہند و آبادی کچھ حد تک بڑھی ہوئی ہے۔
سین نے کہاکہ’’مذکورہ 2014کے نتائج صرف اس بات کی عکاسی کرتے ہیں ہیں جتنے والی پارٹی اس مخصوص نظام میں کامیاب ہوئی تھی‘‘
۔ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں میں خوف کی وجہہ کے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہو ں نے کہاکہ ’’ دماغی اخترا ع ہے یہ ہے کہ اگر ہم اقلیت ہیں ہمیں محروم رکھا جائے گا اور ہم مسائل کا شکار ہونگے ‘ جس سے خود بخود کمزوری پیدا ہوجائے گی‘‘۔
نتائج کا انحصار اعداد وشمار پر نہیں ہوتا ‘ مگر جب ہم انتخابی ضابطہ عمل اور سیاسی نظام تک رسائی کرتے ہیں ۔
سین نے کہاکہ اہمیت کی حامل جیت وہ ہے جس میں مسائل کو طاقتور طریقے سے اٹھایاجائے اور تبادلے خیال کے ذریعہ اس پرفوری توجہہ دی جائے اور اس کو حل کیاجائے۔ایک سماجی جہدکار اربا چودھری نے موجودہ حالات میں دائیں بازو نظریات کے متعلق سوال اٹھائے ۔
ہندوستان میں دائیں بازو نظریات کی حامل طاقتوں کی موجودگی کے متعلق بات کرتے ہوئے سین نے کہاکہ’’ میں خود کو بائیں بازو نظریات کا حامل سمجھتاہوں مگر یہ ایک یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ تمام سیاسی سوالات دائیں او ربائیں بازو کے اردگرد مرکز نہیں ہیں۔
ہمارے پاس اقلیتوں کے ساتھ برتاؤاور سکیولرزم اور مختلف مذاہب کے لوگوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے مسائل ہیں‘ مگر صرف بائیں بازو کے مسائل پر بات کرنے نہیں چاہئے‘‘۔ غیر بائیں بازو لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لئے ہمارے پاس کئی وجوہات ہیں۔ یہاں تک کہ 2019کے الیکشن سے قبل یہ دل کو چھولینے والا سوال ہوگا۔
مگر ایک چیز واضح کرلیا چاہئے کہ ہاتھ ملانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دوپارٹیاں ایک دوسرے کے نظریات سے اتفاق کریں گی۔ ایک چاہئے گا کہ تقسیم کی سیاست اور اقلیتوں کے ساتھ رویہ کے خلاف مقابلہ کرے‘‘۔
انہو ں نے مزیدکہاکہ اس کے بجائیتمام لوگ جو آزاد خیال ہیں یہ ضروری سمجھیں کہ متحد ہوکر آواز اٹھائیں تاکہ یہ اقتدار والی اکثریت کے لئے کافی ہوگا۔