’’اس حکومت میں مسلمانوں کیساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے ؟‘‘

حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہیں، یوگی ادتیہ ناتھ نے میری فرض شناسی کا بدلہ لیا : ڈاکٹر کفیل احمد خاں

۔8 ماہ کی جیل نے سب کچھ سکھا دیا
گورکھپور میں 48 گھنٹوں کا کرب ناقابل بیان

حیدرآباد۔6مئی (سیاست نیوز) میری ماں کو تو اس کا بیٹا 8ماہ بعد مل گیا لیکن ان ماؤں کو ان کے بیٹے کبھی نہیں ملیں گے جن کی گود 10تا12اگسٹ 2017 کو 48 گھنٹوں کے دوران گورکھپور کے بی ڈی آر دواخانہ میں اجڑ گئیں۔ میرے لئے جیل کی آٹھ ماہ کی صعوبتوں سے زیادہ تکلیف دہ وہ 48 گھنٹے تھے جب بی آر ڈی میڈیکل کالج میں آکسیجن کی کمی سے بچے فوت ہو رہے تھے۔ جیل سے ضمانت پر رہا ہونے والے ڈاکٹر کفیل احمد خان نے جیل سے رہا ہونے کے بعد دیئے گئے پہلے تفصیلی انٹرویو کے دوران یہ بات کہی۔ انہوں نے بتایاکہ ان کی بیٹی انہیں بڑی مشکل سے پہچان پاتی ہیں کیونکہ جب وہ جیل گئے تھے تو ان کی لڑکی 11 ماہ کی تھی اور وہ بات نہیں کرتی تھی لیکن اب وہ بات کرتی ہے لیکن ’پاپا‘ بڑی مشکل سے کہتی ہے۔ ڈاکٹر کفیل احمد خان نے بتایا کہ جیل میں گذارے گئے ان ایام کے دوران انہوں نے جو سبق حاصل کیا ہے وہ یہ کہ زندگی میں کبھی شکست خوردہ نہیں ہونا چاہئے اور حالات کا مقابلہ کرتے رہنا چاہئے۔ انہوں نے اس استفسار پر کہ آیا ان کے مسلمان ہونے کے سبب انہیں نشانہ بنایا گیا ہے! تو واضح طور پر کہا کہ چیف منسٹر اتر پردیش یوگی آدتیہ ناتھ ہی بتا سکتے ہیں کہ کیوں انہیں نشانہ بنایا گیا جبکہ انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا بلکہ دواخانہ میں فوت ہورہے بچوں کی جان بچانے کیلئے انہوں نے خانگی افراد سے آکسیجن سلینڈر خریدے اور دواخانہ پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے ان 48 گھنٹوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے کی گئی کوششوں کے نتائج برآمد ہونے لگے تھے اور 13 اگسٹ کو چیف منسٹر نے دواخانہ کا دورہ کرتے ہوئے ان کے متعلق دریافت کیا اور جب وہ ان سے ملے تو ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا تم کفیل احمد ہو! کیا تم نے دواخانہ کو سلینڈرس پہنچائے ہیں! چیف منسٹر نے ان سے کہا کہ کیا تم خود کو ہیرو سمجھتے ہوئے ! میں تمہیں دکھا تا ہوں۔ ڈاکٹر کفیل احمد خان نے بتایا کہ جس وقت انہیں دواخانہ میں آکسیجن سلینڈرس کی سپلائی بند ہونے کی اطلاع دی گئی تو وہ سیدھے دواخانہ پہنچے اور اعلی حکام سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی یہ کوششیں ناکام ثابت ہوئی ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ دیگر ڈاکٹرس کی مدد سے مقامی خانگی دواخانوں سے آکسیجن سیلینڈرس اور خانگی سپلائرس سے سیلینڈرس کی خریدی میں کامیاب ہوئے اور سینکڑوں بچوں کی جان بچائی گئی لیکن ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ دنیا کے سامنے ہے۔ انہو ںنے بتایا کہ چیف منسٹر کے دورہ کے بعد ان پر بے بنیاد الزامات عائد کئے جانے لگے ۔ ڈاکٹر کفیل کا مانناہے کہ چیف منسٹر کا شائد یہ احساس ہے کہ میڈیا کو انہوں نے دواخانہ میں آکسیجن کی قلت کے متعلق واقف کروایا ہے۔ انہو ںنے بتایا کہ ان کے ساتھیوں نے انہیں مزید خوفزدہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں انکاؤنٹر میں ہلاک کیا جا سکتا ہے اسی لئے وہ کچھ دن کے لئے روپوش ہوگئے تھے۔ انہوں نے ان میں پیدا ہونے والے خوف کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب بیف رکھنے کے نام پر اخلاق کو ہلاک کیا جا سکتا ہے اور ٹرین میں نشست نہ ملنے پر جنید کو موت کے گھاٹ اتارا جا سکتا ہے تو کچھ بھی ممکن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ان واقعات کی مذمت کیا کرتے تھے لیکن اب جب ان پر ہی یہ حالات گذر رہے ہیں تو انہیں اس بات کا اندازہ ہورہا ہے کہ خاندان کو کن تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ڈاکٹر کفیل احمد خان نے بتایا کہ وہ ماہر اطفال ہونے کے سبب والدین کو یہ مشورہ دیا کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنے بچوں کے بچپن کو جینے کی کوشش کریں ۔