چین کے مسلم اقلیت گروپ کے جدوجہد کرنے والے دنیاکی مشہور جہدکار نے آسڑیلیا پر زوردیا ہے کہ بیجنگ کے ساتھ وہ اپنے اقتصادی تعلقات کو برقرار نہ رکھیں‘ گروپ کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کے متعلق بات کرے۔
ملک بدر ایغور لیڈر ریبیا قدیر جس کا تقابل تبت کے دلائی لامہ سے کیاجاتا ہے واشنگٹن میں ایک امریکی سفارت کار کی جانب سے سنوائی کے بعد یہ کہا کہ چین کے شمال مغرب میں مذہبی اقلیت پر پولیس کی حکومت کا نفاذ دنیا میں ہونے والے مظالم کی ایک بدترین مثال ہے۔
فائیر فاکس میڈیا کو 71سالہ قدیر نے بتایا کہ جیسا کہ واشنگٹن میں ریپبلکن کے اعلی قائد اور سابق صدراتی امیدوار مارکو روبائیوکی قیادت میں ہوئی سنوائی میں بین الاقوامی میڈیا نے ہمارے لوگوں پر بڑھتے مظالم کی طرف توجہہ دیکھائی ہے‘ اس میں مارکو روبائیونے چینی عہدیداروں پر امتناعات کی سفارش بھی کی ہے۔
مسٹر قدیر نے کہاکہ ’’ مارکو روبائیو نے آج کہا ہے کہ بہت سارے ممالک کو دنیا بھر میں چین سے اقتصادی تعلقات ختم کرنے کا خطرہ لاحق ہے‘ جس کی وجہہ سے وہ ایغور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں’’ جس میں سے ایک درحقیقت آسڑیلیائی حکومت بھی ہے‘‘۔
مذکورہ خصوصی لیڈر اور قومی ایغور کانگریس کے سابق صدر جو اب امریکہ میں مقیم ہیں نے کانبیرا پر زوردیا ہے کہ ’’ ریاست کو دہشت گردی سے منسوب کرنے کے سلسلے کو بندکرنے کے لئے چین سے بات کریں‘‘ جو ان کی عوام کے خلاف ہے۔
آسڑیلیائی وقت کے مطابق جمعرات کے رات دیر گئے چین پر کانگریسی عاملے اجلاس ‘ واشنگٹن کی اسپیشل کمیٹی جو چین میں قانون او رانسانی حقوق کی نگرانی بھی کرتا ہے نے ایغور وں کے نقل مقام پر سنوائی کی ۔
سنیٹر روبائیو جس نے کمیشن کی نگرانی کی نے کہاکہ وہاں پر ’’ ایک اندازے کے مطابق‘‘ 800.000سے ایک ملین لوگ زنچیانگ کے شمال مشرق صوبہ میں ’’ سیاسی تعلیم نو کیمپس‘‘ میں محروس رکھے گئے ہیں ‘ جہاں انہیں اذیتیں بھی دی جارہی ہیں‘ اظہار یگانگت اور کھانے کے علاوہ پہننے کے لئے کپڑوں سے محروم رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ’’ زنچیانگ ایغور خود مختار علاقے میں انسانی حقوق کا موجودہ بحران ‘ جس میں مسلم اقلیتی گروپس کو نشانہ بنایاجارہا ہے کہ دنیا بھر میں ہونے والے مظالم سے خطرناک ہے ‘ اور انتظامی حکومت منظم انداز میں اقلیتی عقائد والے طبقے کو بے رحمی کے ساتھ نشانہ بنارہی ہے