امریکی صدر ڈونالڈ ٹرٹپ نے شاید سوچاتھاکہ ’’ یروشلم‘‘ کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرنے کے فیصلے پر کسی طرف سے کوئی احتجاج نہیں ہوگا۔کیونکہ عالم اسلام میں اب کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو امریکہ کے خلا ف آواز اٹھاسکے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ فلسطین اور عالم اسلام میں تو آتشِ غضب بھڑکی ہی یوروپی یونین اور سکیورٹی کونسل نے بھی ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کی۔ سکیورٹی کونسل بھی ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کی۔سکیورٹی کونسل کے رکن 15میں سے 14ممالک نے اس فیصلے کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی بتاتے ہوئے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا جس کی تاب نہ لاکر امریکی نمائندے نے اقوام متحدہ کے وقار پر ہی حملہ کردیا۔اس کا کہناتھا کہ اس ادارے نے ہمیشہ اسرائیل دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے جب کہ واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل کا وجود اور بقاء اقوام متحدہ کا رہین منت ہے۔ اس عالمی ادارے نے ہر وہ کام کیاہے جس سے اسرائیل کو تقویت پہنچی ہے۔
امریکی نمائندے کے اس بیان سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر وہ شخص او رادارہ جو ظلم وناانصافی کی پردہ پوشی کرتا ہے یا اس کے قول وفعل میں تضا ہے وہ رسوا ضرور ہوتا ہے۔یوروپی یونین کے ممالک کا کہنا ہے کہ امریکی اقدام سے اس خطے میں امن کو خطرہ لاحق ہوگا۔اور وہ چاہتے ہیں کہ یروشلم کومشترکہ راجدھانی قرار دے کر مسئلہ فلسطین کو دووریاستی فارمولہ کی بنیاد پر حل کیاجائے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ1947میں جب فلسطین تقسیم کرنے کا فیصلہ لیاگیا تھا اس وقت یہ بھی طئے ہوگیا تھا کہ یروشلم نہ تو کسی عرب ملک کا حصہ ہوگا نہ وجود میں
آنے والے یہودی ملک کا مگر اسرائیل کے وجود میںآنے کے بعد جو جنگیں ہوئیں ان میں یروشلم اردن اور اسرائیل میں تقسیم ہوگیا۔
سال1967کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کرکے اس کو اپنے ملک کا حصہ بنالیا۔ اس حصے میں عربوں کو ایک خصوصی درجہ دئے جانے کا اعلان ضرور ہواتھا مگر عملاً ایسا نہیں ہوا۔سال1993میں جو معاہدہ ہوا جس کو ’’ اوسلو معاہدہ‘‘ کہاجاتا ہے اور جس کے تحت ایک خود مختار فلسطینی اتھارٹی تشکیل دی گئی اس میں بھی یروشلم کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیاگیا بلکہ اس کوان معاملات میں شامل کیاگیا جن کا فیصلہ کیاجانا ابھی باقی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ٹرمپ یا امریکہ ان حقائق سے واقف نہیں ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے جس نفرت سے اپنی انتخابی مہم کی ابتداء کی تھی اور پھر اپنے حق میں ووٹ دینے والوں سے بغیر سوچے سمجھے یہ وعدہ کرلیاتھا کہ ان کے اس اقدام کا کیانتیجہ برآمد ہوگا بالآخر یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرکے اپنے سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کردیا۔اس کا اعلان تو اب ہوا ہے مگر منصوبہ پرانا ہے ۔
ان کے اس اعلان سے سب سے زیادہ چوٹ ان لوگوں کو پہنچی ہے جو مشرقی وسطی میں ان کے حلیف تھے۔ اس کی زد میں وہ عرب سربراہ بھی ائے ہیں جو امن مذاکر ت کے حق میں رہے ہیں اور محمو د عباس بھی جن کو اصرار رہا ہے کہ فلسطین اسرائیک کا مسئلہ گفتگو سے ہی حل ہوسکتا ہے ۔ جب امریکہ کے دباؤ میں اسرائیل ‘ فلسطین کے درمیان متعدد معاہدے ہوئے تھے تبھی بہتوں نے ان معاہدوں کو فریب قراردیاتھا۔ راقم الحروف کا بھی یہ موقف تھا کہ معاہدے کے نام پر عربوں کو مجبور کیاجارہا ہے کہ اسرائیل کے منشاء پر عمل کرو ورنہ خیر نہیں مگر ایک دوسرا گروہ اس معاہدے کو ’’ آل ابرہیم کا ملاپ‘‘ قراردے کر اس سے اچھی توقعات وابستہ کئے ہوئے تھا۔ اب یہ ثابت ہوگیا کہ امریکہ کا من مشن اور فلسطین اورعرب عووام اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی راہ ترک کردیں۔ یہی ہوا بھی ۔ ایک حیرت ناک بات تو یہ ہوئی کہ فلسطین عرب ملکوں میں امریکہ کے حلیف سمجھے جانے والے حکمرانوں نے جو ردعمل ظاہر کیاتھا اس سے نہ صرف وہ تلملا گیاہے بلکہ اس نے الزام لگایا ہے کہ فلسطین گفتگو یا مذاکرات کے عہدے سے پیچھے ہٹ رہا ہے ۔
یہ صریحاً فریب ہے۔ یروشلم کو راجدھانی تسلیم کرلینے کے بعد مذاکرات کے کیامعنی رہ جاتے ہیں؟ ٹرمپ اور امریکہ زعم میں مبتلا ہیں کی ان کی طاقت کے سامنے کوئی ٹک سکتا ‘ اس لئے وہ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ یروشلم کو راجدھانی تسلیم کرنے سے پہلے بھی امریکہ اور دوسرے ممالک کے سربراہ یروشلم میں ہی اسرائیلی حکمرانوں سے ملاقات کرتے تھے۔ اس لئے سوچا جاسکتا ہے کہ پہلے کچھ نہیں ہوا تو اب کیاہوگا؟۔ مگر یہ سوچنا غلط ہے۔ ڈونالڈٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرنے اور امریکی سفار ت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے سے اسرائیل کے خلاف فلسطینی عوام کی مسلح مزاحمت کی راہ میں آرے آنے والے حکمران نہ صرف بے بھرم ہوگئے ہیں بلکہ ان کے لئے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں ‘ نیویارک میں ہونے والا دھماکہ شائد اسی کی طرف اشارہ ہے کہ خود امریکہ بھی محفوظ نہیں ہے۔
ہم اس دھماکے کو اچھانہیں سمجھتے مگر ساتھ ہی یہ بھی پوچھتے ہیں کہ اس کا ذمہ دار کیا صرف وہ شخص ہے جس نے یہ دھماکہ کیا یا امریکہ بھی ہے‘ جس نے اس کی وجہہ مہیا کی۔آئندہ امریکی تنصیبات اور مفادات پر بڑے پیمانے پر حملے ہوسکتے ہیں۔بشمول امریکہ عالمی معاشرہ اس خطرہ کو سمجھ رہا ہے اس لئے کئی کالم نگاروں اور سیاسی تجزیہ کرنے والوں نے لکھا ہے کہ اگر ٹرمپ تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ منتقل کرنا ہی تھا تو ان کو یروشلم میں ایک نہیں دوسفارت خانے بنانے چاہئے تھے۔
ایک اسرائیل سے رابطے کے لئے دوسرا فلسطین سے اپنے تعلقات استوار رکھنے کے لئے ۔ ایک عرصے سے دوریاستی حل کی بات بھی کی جارہی تھی اور قطع نظر اس سے کہ فلسطینی یا عرب عوام کا اس سلسلے کو کیاکہنا ہے ‘ عام طور سے یہی سمجھا جارہا تھا کہ اسرائیل نام کا ایک ملک سے تو پہلے ہی قائم ہوچکا ہے فلسطین کو بھی آزاد مملکت کا درجہ دیا جائے گا مگر اب کیاسمجھا یاجائے گا؟۔یروشلم کی اسرائیلی راجدھانی کا درجہ دیا جانا اور مملکت فلسطین کے قیام کے سوال پر خموشی اختیار کرنا کیا ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ امریکہ صرف فریب دینے کے لئے جس موقف کا اظہار کیا کرتاتھااب اس سے بھی منحرف ہوگیا ہے۔ یہ انحراف اسرائیل و امریکہ کے خلاف عوامی مزاحمت کی کسی نئی شکل کو جنم دے گا۔ عرب اور فلسطینی عوام میں قوت مزاحمت ابھی باقی ہے۔