اسد اویسی نے دھماکہ کیلئے شاہد بلال کو ذمہ دار قرار دیا تھا

مکہ مسجد بم دھماکہ کیس
اب عدالتی فیصلے کے خلاف متاثرہ خاندانوںکو اپیل میں مدد فراہم کرنے رکن پارلیمنٹ حیدرآباد کا اعلان

حیدرآباد 22 اپریل ( بشکریہ’’ مسلم مرر‘‘ ) رکن پارلیمنٹ حیدرآباد و صدر مجلس اسد الدین اویسی نے یہ اعلان کیا ہے کہ مکہ مسجد بم دھماکہ کے متاثرین کے کسی کے ارکان خاندان اگر ملزمین کو بری کرنے کے عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنا چاہیں تو وہ ان کی مدد کرنے کیلئے تیار ہیں۔ وہ متاثرین کے ارکان خاندان کو ہر طرح کی قانونی مدد فراہم کرینگے ۔ اسد اویسی کا کہنا تھا کہ اگر کسی متاثرہ فرد کے افراد خاندان عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنا چاہیں تو وہ انہیں قانونی مدد کرنے کیلئے تیار ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ اب قومی تحقیقاتی ایجنسی ( این آی اے ) کو پنجرہ میں قید طوطا قرار دینے لگے ہیں لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے آنکھ اور کان بھی نہیں ہیں۔ حالانکہ اسداویسی اب متاثرین کے افراد خاندان کی مدد کا اعلان تو کر رہے ہیں لیکن بہت زیادہ وقت نہیں گذرا ہے جب انہوں نے خود اپنے طور پر مکہ مسجد بم دھماکہ کے لئے مسلم نوجوانوں ہی کو ذمہ دار قرا ر دیا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ حرکت الجہاد اسلامی نامی تنظیم کا ہندوستان کا سربراہ حیدرآبادی نوجوان شاہد بلال ان دھماکوں کا ذمہ دار ہے ۔ اسد اویسی نے 2007 میں ہندوستان ٹائمز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ حیدرآباد میں دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں ہوسکتی کیونکہ یہاں مسلمان ملک میں سب سے بہتر حالات میں ہیں۔ یہاں مسلمانوں کیلئے سماجی اور معاشی حالات سب سے بہتر ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ محمد شاہد بلال جیسے کچھ مٹھی بھر نوجوان اور کچھ شرارت پسند تنظیمیں حیدرآباد کو تباہی کے راستے پر ڈھیکیل رہی ہیں۔ اسد اویسی کا ہنا تھا کہ شاہد بلال اور اس کے افراد خاندان کے ساتھ ہوسکتا ہے کہ کچھ غلط ہے ۔ شاہد کا بھائی زاہد جو وشاکھاپٹنم جیل میں ہے وہ شاہد بلال سے زیادہ خطرناک ہے ۔ اسد اویسی نے کہا تھا کہ میں یہ مانتا ہوں کہ شاہد بلال دوہرے بم دھماکوں اور مکہ مسجد دھماکہ میں ملوث ہے ۔ اب اسد اویسی اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دے رہے ہیںلیکن ان کے بیانات اب بھی موجود ہے اور ان کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔ مکہ مسجد مقدمہ ہوسکتا ہے کہ ملزمین کی براء ت کے ساتھ اپنے اختتام کو پہونچ گیا ہو لیکن ایک پہلو پر کوئی بھی دھیان نہیں دے رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ زائد از 100 مسلم نوجوانوں کو مئی 2007 میں ہوئے مکہ مسجد دھماکوں کے بعد مختلف الزامات عائد کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا ۔ انہیں اذیتیں دی گئی تھیں اور انہیں مقدمات میں ماخوذ کرتے ہوئے جیل بھیج دیا گیا تھا جہاں انہوں نے کئی برس گذارے ۔ اس وقت کے پولیس کمشنر حیدرآباد بلویندر سنگھ نے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیتے ہوئے تحقیقات کی ہدایت دی تھی ۔ اس ٹیم نے شبہ کی بنیاد پر کئی مسلم نوجوانوں کو حراست میں لیا تھا اور ان تقریبا 100 سے زائد نوجوانوں کے خلاف مقدمات درج کرتے ہوئے انہیں عدالتی تحویل میں بھیج دیا تھا ۔ بعد میں ان نوجوانوں کو عدالتوں کی جانب سے بری کردیا گیا تھا جبکہ ہندو فرقہ پرست تنظیموں کے ارکان کی ان دھماکوں میں ملوث ہونے پر گرفتاری عمل میں آئی تھی ۔ ان تبدیلیوں پر ریاستی انتظامیہ کو اور پولیس کو مایوسی اور الجھن کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ حکومت کو اس وقت ان مقدمات میں غلط ماخوذ کئے گئے نوجوانوں کو معاوضہ بھی ادا کرنا پڑا تھا ۔ ان نوجوانوں کی کئی سال بعد جیلوں سے رہائی عمل میں آئی تھی ۔ ان دھماکوں میں جب ہندو فرقہ پرست کارکنوں کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تھا مجسٹریٹ کے روبرو اسیمانند کے اقبالی بیان کے باوجود کسی کو سزا نہیں ملی ۔ پبلک پراسکیوٹر ‘ جو آر ایس ایس سے تعلق رکھتے ہیں ‘ عدالت کے سامنے کوئی بھی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ۔