استنبول ایرپورٹ پر دہشت گرد حملہ ، 41 ہلاک ، سینکڑوں زخمی

حملے کیلئے حکومت ترکی کا داعش پر الزام ، مہلوکین میں 13 غیرملکی شامل ، ریتک روشن بال بال بچ گئے
استنبول۔29 جون (سیاست ڈاٹ کام) استنبول کے بین الاقوامی ہوائی اڈے میں منگل کی شب ہونے والے خودکش دھماکوں اور فائرنگ سے مرنے والوں کی تعداد 41 ہو گئی ہے۔استنبول کے گورنر واسب ساہن کے مطابق اتاترک ایئرپورٹ پر مرنے والوں میں ترکی کے 24 شہری جبکہ 13 غیر ملکی شامل ہیں جن میں سے تین کے پاس دوہری شہریت تھی۔دہشت گردی کی اس واردات میں مرنے والے غیر ملکیوں میں سعودی عرب کے پانچ، عراق کے دو جبکہ چین، ایران، ازبکستان، تیونس، اردن اور یوکرین کا ایک ایک شہری شامل ہیں۔ان حملوں میں زخمی ہونے والے افراد کی تعداد بھی 239 بتائی گئی ہے جن میں سے 100 سے زیادہ کو طبی امداد کے بعد ہاسپٹل سے فارغ کر دیا گیا ہے۔استنبول کے گورنر نے صحافیوں کو بتایا:’ تین خودکش حملہ آوروں نے یہ حملہ کیا۔‘حکام کا کہنا ہے کہ ان کا ہدف ٹرمینل کا داخلی راستہ تھا جس میں سے ایک نے کلاشنکوف سے فائرنگ بھی کی اور پھر تینوں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ سکیورٹی اہلکاروں نے مشتبہ حملہ آوروں کو ہوائی اڈے کے داخلی راستے پر روکنے کے لیے فائرنگ بھی کی۔

تاحال کسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حملوں میں خود کو دولتِ اسلامیہ کہنے والی شدت پسند تنظیم ملوث ہے۔ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے کہا ہے کہ استنبول ایئر پورٹ پر حملوں کا مقصد معصوم لوگوں کے خون اور تکلیف کے ذریعے ان کے ملک کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا ہے۔انھوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن موقف اپنائے۔ترکی میں گذشتہ برس سے اب تک جتنے دھماکے ہوئے ہیں ان کی ذمہ داری یا تو کرد ملیشیا یا پھر شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ قبول کرتی رہی ہے۔ دفاعی اْمور پر بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن مارکس کا کہنا ہے کہ استنبول میں ہونے والا دھماکوں میں خودکش حملہ آور خود کار ہتھیاروں سے لیس تھے عموماً دولت اسلامیہ اس طرح سے حملہ کرتی ہے۔ان کے مطابق ترکی کو دو اطراف سے دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے۔

شام میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کی جانب سے اور کرد ریاست میں علیحدگی پسند کرد باغیوں سے۔جوناتھن مارکس کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک سال سے ترکی میں کردش ملیشیا اور دولتِ اسلامیہ کے حملوں سے سیاحت کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔استنبول پر حملے کے بعد امریکی وزارت خارجہ نے امریکی شہریوں کے لیے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عوامی اور سیاحتی مقامات پر جاتے وقت ہوشیار رہیں۔استنبول کا کمال اتاترک ایئر پورٹ یورپ کا تیسرا مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے اور گذشتہ برس 6 کروڑ 10 لاکھ مسافروں نے اسے استعمال کیا۔ترکی میں کرد علیحدگی پسندوں اور حکومت کے درمیان کشیدگی اور ہمسایہ ملک شام میں جاری تنازعہ کی وجہ سے پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔رواں ماہ ہی استنبول کے وسطی علاقے میں ہوئے دھماکے میں کم از کم 11 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ہندوستانی فلم اداکار ریتک روشن بال بال بچ گئے کیونکہ وہ حملے سے صرف آدھا گھنٹہ پہلے ہی وہاں سے روانہ ہوگئے تھے۔

 

ترکی حملہ امریکہ کو پسپا نہیں کرسکتا : ہلاری کلنٹن
واشنگٹن۔ 29 جون (سیاست ڈاٹ کام) ڈیموکریٹک کی امکانی طور پر نامزد کی جانے والی صدارتی امیدوار ہلاری کلنٹن نے کہا کہ ترکی میں جو دہشت گرد حملہ ہوا ہے، وہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ امریکہ کو اس خطہ میں پسپا نہیں کیا جاسکتا اور مشرق وسطیٰ اور یوروپ کو چاہئے کہ وہ اپنے باہمی تعاون میں توسیع کرتے ہوئے اس چیلنج سے نمٹیں۔ آج کئے گئے حملے نے ہمارے ان عزائم کو مزید پختہ کردیا ہے جہاں ہم نے سخت گیر جہاد کو عالمی سطح پر جڑ سے اُکھاڑ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہلاری نے کہا کہ اس سے ایک بات واضح ہوگئی کہ امریکہ کو اس خطہ میں پسپا نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے ایک بار پھر اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ ہمیں مشرق وسطیٰ اور یوروپ میں اپنے حامی ممالک کی جانب دست تعاون دراز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہر ملک کو اگر اپنی سرزمین کو دہشت گردی سے پاک کرتا ہے تو ایسا کرنا اشد ضروری ہے۔ دوسری طرف ری پبلیکن کے امکانی صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی ترکی میں ہوئے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا ہے دنیا کو یہ احساس کب ہوگا کہ کیا ہورہا ہے؟ اس ہیبتناک دہشت گردی کو امریکہ سے دور رکھنے ہمیں ہر ممکنہ کوشش کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دشمن انتہائی چالاک اور سفاک ہیں اور جو ان کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکتے، انہیں قتل کرنے کے لئے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں، لہذا اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایسے اقدامات کریں جس سے امریکہ کو دہشت گردی سے پاک ملک بنایا جاسکے۔ ری پبلیکن کے سابق صدارتی امیدوار اور فلوریڈا کے سینیٹر مارکو روبیونے ترکی میں ہوئے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ترکی کے ساتھ ہے۔