ازبکستان کے صدر اسلام کریموف مکمل اعزاز کے ساتھ سپرد لحد

بانکی مون ، اوباما اور دیگر عالمی قائدین نے مرحوم صدر کو خراج عقیدت پیش کیا ، جانشین کی تلاش جاری

سمرقند ۔3 ستمبر ۔(سیاست ڈاٹ کام) ازبکستان کے صدر اسلام کریموف کو آج مکمل اعزازات کے ساتھ سپردلحد کردیا گیا جبکہ سارا ملک اس وقت سابقہ سوویت یونین کی شیزادہ بندی کے بعد بدترین غیریقینی حالات سے دوچار ہے کیونکہ اب تک ان کے جانشین کا انتخاب نہیں ہوسکا ہے ۔ انھوں نے 27 سال تک ملک کی قیادت کی ۔ 78 سالہ اسلام کریموف کا دماغ کی شریان پھٹنے کے باعث چھ روز زیر علاج رہنے کے بعد کل جمعہ کو انتقال ہوگیا تھا۔بعد میں حکومت نے بھی صدر کی موت کی تصدیق کردی تھی۔1989کے بعد سے ازبکستان کے 32ملین شہریوں میں سے تقریباً نصف ان کے دور اقتدار میں پیدا ہوئے ہیں۔ہزاروں افراد اپنے رہنما کو آخری خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے سمرقند پہنچے حالانکہ مرحوم صدرپر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مخالفین کو دبانے کے الزام عائد کیے جاتے رہے ہیں۔کئی لوگ سیاہ لباس پہنے اپنے غم کا اظہار کررہے تھے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ملک کا نیا حکمراں کون ہوگا تاہم وزیر اعظم شوکت کو متوقع جانشین کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔اسلام کریموف کا کوئی واضح جانشین نہیں ہے ۔ ازبکستان میں کوئی قانونی حزب اختلاف نہیں ہے اور ذرائع ابلاغ پر سخت سرکاری کنٹرول ہے ۔ خیال رہے کہ سب سے پہلے ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے صدر کریموف کی موت کی خبر دی۔ ان کے بیان سے قبل صدر کریموف کی موت کی افواہیں گردش کر رہی تھیں۔حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ صدر کریموف انتقال کر چکے ہیں ۔

لیکن ان کی موت کی خبر عام نہیں کی جارہی تھی۔ماضی میں بھی ازبک صدر کی صحت کے مسائل کو ریاستی راز کی طرح چھپایا گیاتھا۔ازبکستان کے سرکاری ٹی وی پر حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’’ہم انتہائی دکھ کے ساتھ یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہمارے عزیز صدر انتقال کرگئے ہیں‘‘۔حکام کا کہنا تھا کہ78 سالہ اسلام کریموف کا انتقال افواہوں کے برعکس، جمعہ کے روز مقامی وقت کے مطابق تقریباً رات 9 بجے ہوا۔ میڈیا رپورٹس میں کہا جارہا تھا کہ اسلام کریموف دماغ کی شریان پھٹنے کے باعث چند روز قبل ہی انتقال کرگئے تھے اور ازبکستان کی حکومت اس کے اعلان میں تاخیر کر رہی ہے ۔ٹی وی پر براہ راست نشر کی جانے والی کابینہ کے اجلاس میں ترکی کے وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا تھا کہ ’’ازبک صدر اسلام کریموف چل بسے ہیں۔ ہم ازبک عوام کے دکھ اور درد میں برابر کے شریک ہیں‘‘۔جارجیا کہ صدر جارجی مارگ ویلاشوِلی نے بھی صدارتی ویب سائٹ پر ایک تعزیتی بیان شائع کیا ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے اور جارجیا کے عوام کی طرف سے صدر کے خاندان اور ازبک عوام سے اظہار تعزیت کے خواہش مند ہیں۔اقوام متحدہ جنرل سکریٹری بان کی مون نے علاقائی عالمی امن اور استحکام کیلئے صدر ازبکستان اسلام کریموف کی خدمات کو خراج پیش کیا ۔

انھوں نے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اقوام متحدہ ازبکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ ملکر کام کرتا رہے گا ۔ صدر امریکہ براک اوباما نے بھی اسلام کریموف کے انتقال پر گہرے رنج و غم کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ امریکہ اس وسطی ایشیائی ملک کے ساتھ قریبی رفاقت نبھاتا رہے گا ۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ملک کے قائم مقام صدر نگماتولا یُولداشیو کے نام خط میں، اسلام کریموف کے انتقال کو ازبکستان کے عوام کیلئے بڑا نقصان قرار دیا۔وہ ملک کے سچے رہنما تھے ۔چینی صدر ژی جن پنگ کریموف کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور کہاکہ انہوں نے اپنا ایک سچا دوست کھودیا۔ چینی صدر نے کہا کہ مسٹر کریموف کے تاریخی کارناموں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 1991میں روس سے آزادی حاصل کرنے بعد اسلام کریموف نے بطور صدر ازبکستان کی باگ دوڑ سنبھالی، تاہم سخت گیر حکومت اور ملک میں سخت قوانین کے نفاذ کے باعث انہیں انسانی حقوق کے گروپس کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔تاہم اسلام کریموف نے خود کو ملک میں استحکام کے ضامن کے طور پر پیش کیا اور افغانستان سے ملے سرحدی علاقوں میں اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کرکے انہیں شکست دی۔