ارکین پارلیمنٹ سے تھریسیا مئی کے گذارش کی کہ وہ ’’ حب الوطن ‘‘ کی طرح رویہ اپنا ئیں

’’ کئی ماہ تک ہم ای یو کو چھوڑ نہیں سکتے‘‘
لندن- برطانوی دارالعوام کے ارکان کی اکثریت نے بریگزٹ میں تاخیر سے متعلق قرارداد کو مسترد کر دیا ہے۔اس قرارداد میں یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج ( بریگزٹ) میں تاخیر کا مطالبہ کیا گیا تھا تاکہ تنظیم میں رہنے یا اس کو خیرباد کہنے سے متعلق فیصلے کے لیے ملک میں ایک اور ریفرینڈم کا انعقاد کیا جاسکے۔
برطانیہ میں یورپی یونین سے اخراج کے لیے ریفرینڈم کے انعقاد کے تین سال کے بعد صرف 85 ارکان نے نئی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا ہے جبکہ 334 ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
حزبِ اختلاف لیبر پارٹی کے بیشتر ارکان نے بریگزٹ ریفرینڈم کے دوبارہ انعقاد سے متعلق قرارداد پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا ہے۔گذشتہ روز دارالعوام کے ارکان کی اکثریت نے مستقبل میں کسی بھی منظر نامے میں کسی ڈیل کے بغیر یورپی یونین سے اخراج کو مسترد کردیا تھا۔
دارالعوام کے 312 ارکان نے بریگزٹ ڈیل میں ترمیم اے کے حق میں ووٹ دیا تھا اور 308 ارکان نے اس کی مخالفت کی تھی۔اس کی منظوری سے وزیراعظم تھریز امے پر کسی ڈیل کے بغیر یورپی یونین سے اخراج کو مسترد کرنے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔اس ترمیم میں بھی حکومت سے یہی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ’’ نو ڈیل ایگزٹ‘‘ کو مسترد کردے۔
اس میں کہا گیا تھا کہ پارلیمان کسی سمجھوتے کے بغیر 29 مارچ کو برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلا نہیں چاہتی ہے اور اس ضمن میں کسی بھی ڈیل کی پارلیمان میں توثیق ہونی چاہیے۔
اس ترمیم اے کے ذریعے حکومت کی تحریک کو مسترد کردیا گیا ہے لیکن اس کا ایک یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ ارکان پارلیمان اب بریگزٹ کو موخر کرنے کے لیے رائے شماری کا سہارا لے سکتے ہیں۔
دارالعوام نے منگل کو وزیراعظم تھریز امے کی یورپی یونین سے طلاق کی ڈیل ( بریگزٹ) کثرت رائے سے مسترد کردی تھی۔
تھریزا مے نے یورپی یونین سے حالیہ دنوں میں مذاکرات کے بعد پارلیمان میں بریگزٹ کا ایک ترمیمی بل رائے شماری کے لیے پیش کیا تھا اور انھوں نے ارکان سے اپیل کی تھی کہ وہ اس کی حمایت کریں لیکن 391 ارکان نے اس کی مخالفت کی تھی اور صرف 242 ارکان نے اس کی حمایت کی ہے۔
کوئی نیا سمجھوتا نہ ہونے کی صورت میں اگر 29 مارچ کو برطانیہ اور یورپی یونین میں طلاق نہیں ہوتی ہے تو اس کا ایک نتیجہ قبل از وقت انتخابات ہوسکتے ہیں یا پھر ایک نیا ریفرینڈم ہوسکتا ہے اور اس سے کچھ بھی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔
 کیونکہ برطانوی ووٹر ملک کے یورپی یونین میں برقرار رہنے کے حق میں بھی ووٹ دے سکتے ہیں مگر پارلیمان نئے ریفرینڈم کے انعقاد کے حق میں نہیں ہے۔