سرینگر-جموں وکشمیر کے پشتینی باشندے ہونے سے متعلق قانون35اے کی سپریم کورٹ میں شنوائی کے خلاف مشترکہ مزاحمتی قیادت کی طرف سے2روزہ ہڑتال کی حمایت کرنے کا اعلان کرتے ہوئے27تجارتی و کاروباری انجمنوں کے علاوہ سیول سوسائٹی نے بھی اس معاملے پر میدان میں اترنے کا
فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ31 جولائی سے ہی احتجاج شروع کیا جائے گا۔
انہوں نے عدالت عظمیٰ سے اپیل کی کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو چیلنج کرنے والی تمام عرضیوں کو خارج کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ میں آئین ہند کی دفعہ35اے پر شنوائی کی تاریخ جوں جوں نزدیک آرہی ہے،ریاست میں سیاسی حرارت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
مفتی اعظم مفتی ناصر کے بعد مزاحمتی جماعتوں اور سیول سوسائٹی، تجارتی وصنعتی و کاروباری انجمنوں نے بھی واضح کیا ہے کہ ریاست کی خصو صی پوزیشن پر آنچ نہیں آنے دیا جائے گا اور 35اے کا تحفظ کرنے کیلئے وہ ہر ایک قبربانی کیلئے تیار ہیں
۔سرینگر میں27 تجارتی ،کاروباری،صنعتی اور سیاحت سے جڑی انجمنوں کے علاوہ ٹرانسپورٹروں اور سیول سوسائٹی نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران35اے کی شنوائی کے دوران اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے خدشات کے پیش نظر مشترکہ مزاحمتی قیادت کی طرف سے2روزہ ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
سنیئر ٹریڈ یونین لیڈر ڈاکٹر مبین شاہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ31جولائی سے احتجاجی پروگراموں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا جب سے آر ایس ایس کی حمایت یافتہ غیر سرکاری انجمن نے عدالت عظمیٰ میں جموں کشمیر کے سٹیٹ سبجیکٹ قانون کے خلاف عرضی دائر کی ہے،ہمارے پشتینی باشندے ہونے کے قوانین پر حملہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے دفعہ35 اے کو جموں وکشمیر کے پشتینی باشندے ہونے کے قانون کی ڈھال قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانون ریاست میں1927سے رائج ہے۔
ڈاکٹر مبین شاہ نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ دفعہ35اے کو1954میں آئین ہند میں درج کیا گیا،اور اس کے بعد مختلف گروپوں اور انفرادی سطح پر اس قانون کے خلاف مختلف عرضیاں عدالت میں پیش کی گئیں،تاہم ان تمام عرضیوں کو سپریم کورٹ نے مسترد کیا،کیونکہ نئی دہلی میں اس وقت کی سرکاروں نے اس قانون کا متحرک اور معقول دفاع کیا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اس وقت صورتحال مختلف ہے،کیونکہ نئی دہلی کی حکومت نے اپنی ہی آئین کی قانون کے دفاع کیلئے عوامی مفاد عامہ میں داخل کی گئی اس عرضداشت کے خلاف کوئی بھی معقول قدم نہیں اٹھایا۔ڈاکٹر مبین کا کہنا تھا کہ اس صورتحال سے معلوم پڑتا ہے کہ نئی دہلی اس قانون سے چھڑ چھاڑ کرنا چاہتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر اس قانون کے ساتھ کوئی چھیڑ خوانی کی گئی تو جموں کشمیر کے پشتینی باشندوں کے حقوق،انکی غیر منقولہ جائیداد اور دیگر حقوق ختم ہوجائیں گے،اور بھارت کی دیگر ریاستوں کے شہریوں کیلئے جموں کشمیر میں بسنے کا دروازہ کھل جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ عوامی مفاد عامہ کی اس عرضداشت کا مقصد جموں کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کر کے اکثریتی کردار کو ختم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی صورت میں جموں کشمیر کی انفرادیت اور خصوصی حیثیت پر آنچ نہیں آنے دی جائے گی،اور اگر ایسا ہوا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔
اس موقعہ پر کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرس فیڈریشن دھڑے کے صدر حاجی محمد یاسین خان نے کہا کہ جب تک نہ مسئلہ کشمیر حل ہوگا،ریاست کی انفرادی حیثیت کو برقرار رکھنے سے متعلق قوانین کا دفاع کیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وادی چناب اور خطہ پیر پنچال بھی کشمیری عوام کے ساتھ ہے۔
سیول سوسائٹی رکن شکیل قلندر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مرکزی حکومت نے اپنے ہی آئین کے دفعہ35اے کا دفاع کرنے کیلئے عدالت عظمیٰ میں کوئی جوابی بیان حلفی دائر نہیں کیا۔
انہوں نے عدالت عظمیٰ سے اپیل کی کہ وہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو چیلنج کرنے والی تمام عرضیوں کو خارج کریں۔اس دوران پریس کانفرنس میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ31جولائی منگل سے ہی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔
پریس کانفرنس میں پروفیسر حمیدہ نعیم، عبدالمجید زرگر، جاوید احمد ٹینگہ،شوکت احمد چودھری،اقبال ترمبو،جان محمد کول،محمد اشرف میر،بشیر احمد کنگپوش،بشیر احمد راتھر،سراج الدین سراج،غلام جیلانی پرزہ،جان محمد سمیت دیگر تاجر لیڈراں و سیول سوسائٹی ممبران موجود تھے۔