صدر ترکی رجب طیب اردغان نے کہاکہ صحافی جمال خشوگی کے استنبول میں واقع سفارت خانہ میں پیش ائے قتل جس کو ’’ غیر ارادی قتل‘‘ واقعہ قراردیا جارہا ہے مگر اس کا سعودی عرب نے پہلے ہی منصوبہ تیار کیاتھااور مطالبہ کیا کہ مشتبہ لوگوں پر ترکی میں کاروائی ہونی چاہئے۔
استنبول ۔خشوگی کے قتل پر ’’حقائق پر مبنی‘‘ انکشافات کی بات کرنے کے بعد‘ مسٹر اردغان نے اپنے پہلے ردعمل میں کچھ نئی تفصیلات اور بڑے اپریشن کی خاکہ کھینچا۔انہو ں نے کہاکہ جنرلس کے بمول سعودی عہدیدار قتل کی واردات کو انجام دینے کے لئے استنبول پہنچے اور شہر کے مضافاتی علاقے میں خشوگی کے باقیات کو ٹھکانے لگانے کے متعلق راہ تلاش کی جہاں پر تحقیقاتی عہدیدار تلاش کررہے ہیں۔
مسٹر اردغان نے کہاکہ ’’یہ صاف ہے کہ یہ خطرناک قتل کوئی معمولی وقت میں نہیں ہوا ہے بلکہ ایک منصوبہ بند معاملہ ہے‘‘۔انہوں نے سعودی عہدیداروں کی جانب سے دئے گئے بیان جس میں سفارت خانہ کے اندر صحافی کے بحث وتکرار کے دوران قتل کا واقعہ پیش انے کے بیان کو چیالنج بھی کیا۔
اپنی تقریر میں اردغان نے یہ صاف کردیا کہ قتل کے تئیں بین الاقوامی سطح پر پیدا ہونے والی بے چینی کو وہ رائیگاں نہیں جانے دیں گے او رسعودیوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں ان کے ملک میں ہوئے قتل پر ایمانداری کے ساتھ سعودی عرب جواب دے۔
اردغان نے کہاکہ ’’ یہ قتل یقیناًسعودی سفارت خانہ کی عمارت کے اندر ہوا ہے جو ممکن ہے کہ سعودی عربیہ کی ملکیت ہے مگر یہ نہ بھولیں کے وہ علاقے ترکی سرحدوں کے اندر ہے‘‘۔
Turkey's President @RT_Erdogan makes a statement about the killing of Saudi journalist Jamal #Khashoggi during his regular weekly speech to lawmakers in parliament. https://t.co/QnyukFrSW0
— Al Jazeera English (@AJEnglish) October 23, 2018
مسٹر اردغان انقارہ میں اپنی پارٹی کے پارلیمنٹ چیمبرمیں ہفتہ واری خطاب کررہے تھے۔
سعودی عربیہ کہہ رہا ہے کہ مذکورہ قتل کے معاملے میں اٹھارہ عہدیداروں تحقیقات کے گھیرے میں ہیں مگر مسٹر اردغان کاکا کہنا ہے اور انہوں نے سعودی عرب کے فرمانرواں سلمان سے خطاب کرتے ہوئے پوچھا کہ کاروائی استنبول میں ہونی چاہئے نہ ریا ض یا سعودی عربیہ کے کسی او رمقام پر ۔
خشوگی کا قتل کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اور حالیہ دنوں میں ائی تبدیلیوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ بیرونی طاقتیں بھی اس معاملے کی پردہ پوشی کرنے کی فراغ میں ہے مگر یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سعودی عربیہ اور ترکی دونوں ہی علاقائی سطح پر طاقتور ملک کے طور پرپہچانے جاتے ہیں