مودی سے قربت کے باوجود چیف منسٹر، مسلم تحفظات پر مرکز کو قائل کرانے میں ناکام
حیدرآباد ۔ یکم ؍ اگست (سیاست نیوز) مہاراشٹرا میں تعلیم اور ملازمتوں میں تحفظات کا مطالبہ کرتے ہوئے مراٹھے احتجاجی مظاہرہ کررہے ہیں، جس سے ریاست کی فڈنویس حکومت کافی پریشان ہے۔ مسلمانوں نے بھی 5 فیصد تحفظات فراہم کرنے کے مطالبہ کا اعادہ کیا ہے اور حیرت کی بات یہ ہیکہ مسلمانوں کے اس مطالبہ کی شیوسینا جیسی پارٹی نے بھی تائید کی ہے۔ ویسے بھی بمبئی ہائیکورٹ نے مسلمانوں کو 5 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اپنی خمیر میں فرقہ پرستی کا زہر رکھنے اور ہر مسئلہ کو ہندو مسلم کی عینک سے دیکھنے والی بی جے پی کی حکومت نے بمبئی ہائیکورٹ کے حکم کو بھی ماننے سے انکار کردیا۔ اس کے انکار کی وجہ سارا ہندوستان جانتا ہے۔ پیر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر شیوسینا ادھو ٹھاکرے نے یہ کہہ کر دیویندر فڈنویس حکومت کو مزید پریشان کردیا تھا کہ مراٹھوں کے علاوہ دھنگروں، مسلمانوں اور دیگر طبقات نے تحفظات کیلئے جو مطالبات کئے ہیں ان پر بھی غور کرنا چاہئے اور اس معاملہ میں ان کی پارٹی شیوسینا مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی تائید کرے گی۔ مسلمانوں کو تحفظات سے متعلق ادھو ٹھاکرے کا کہنا تھا کہ تحفظات سے متعلق مسلمانوں کے مطالبہ پر بھی غور کیا جانا چاہئے۔ صدر شیوسینا کے بیان کا مہاراشٹرا کی مسلم تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے خیرمقدم کیا ہے۔ اہم بات یہ ہیکہ 5 فیصد تحفظات سے متعلق مسلمانوں کے مطالبہ کو بمبئی ہائیکورٹ کی تائید حاصل ہے۔ بمبئی ہائیکورٹ نے او بی سی موقف کیلئے مراٹھا برادری کی درخواست مسترد کرتے ہوئے مسلمانوں کو 5 فیصد تحفظات دینے کی اجازت دی تھی ساتھ ہی بیاک ورڈ کے کمیشن کے قیام کا حکم دیا تھا۔ مسلمانوں کے مقدمہ میں عدالت عالیہ نے قرائنی شہادت کی بنیاد پر مسلمانوں کو تعلیمی شعبہ میں 5 فیصد تحفظات فراہم کئے جانے کی تاکید کی تھی لیکن افسوس کی بات یہ ہیکہ حکومت مہاراشٹرا نے بمبئی ہائیکورٹ کے حکم پر ہنوز عمل آوری نہیں کی اور یہ سب کچھ اس نے اپنی مسلم دشمنی کے باعث کیا ہے حالانکہ حکومت اور سیاستداں اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمان زندگی کے ہر شعبہ بالخصوص تعلیم اور معاشی تنظیموں میں انتہائی پسماندہ ہیں۔ تحفظات کی فراہمی سے ان کی حالت زار میں نہ صرف تبدیلی آئے گی بلکہ وہ دیگر ابنائے وطن کے ساتھ شانہ بشانہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ سال 2014ء میں کانگریس۔ این سی پی اتحادی حکومت نے ایک آرڈیننس جاری کیا، جس کے ذریعہ مسلمانوں کو ملازمتوں میں 5 فیصد تحفظات فراہم کرنے کی بات کہی گئی تھی لیکن 23 ڈسمبر 2014ء کو یہ آرڈیننس کی اہمیت ختم کردی گئی۔ دوسری طرف ریاست تلنگانہ میں سیکولر کہلانے والے چیف منسٹر مسٹر کے چندرشیکھر راؤ مسلمانوں کوا پنے اقتدار کے اندرون 4 ماہ12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا لیکن اقتدار کے 4 برسوں بعد بھی مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کی راہ ہموار نہیں کرسکے۔ کے سی آر نے وزیراعظم نریندر مودی سے قربت کے باوجود اپنے سیاسی کیریئر کے اس اہم ترین مسئلہ کو حل کرانے میں ناکام رہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر کے سی آر مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کی فراہمی میں سنجیدہ ہوتے تو اب تک اس پسماندہ اقلیت کو 12 فیصد تحفظات حاصل ہوجاتے۔ ان سیاسی پنڈتوں کے مطابق مسلم اقلیت سے کہا گیا اہم وعدہ وفا نہ کرنے کا خمیازہ مجوزہ اسمبلی انتخابات میں کے سی آر اور ان کی پارٹی کو بھگتنا پڑے گا۔ ویسے بھی ٹی آر ایس میں حالیہ عرصہ کے دوران داخلی اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ بعض اضلاع میں کانگریس کا موقف کافی مستحکم ہوگیا ہے ایسے میں مسلمانوں میں ناراضگی کے سی آر کیلئے مہنگی ثابت ہوسکتی ہے۔