نئی دہلی- ہر دور میں ادبا و شعرا نے ادب اطفال کی اہمیت محسوس کی اور اسے پروان چڑھانے کی اپنی سی فکر کی ہے۔ اس ذیل میں اردو شعرا و ادبا کے متعدد نام لیے جاسکتے ہیں۔ ادب اطفال نئی نسل کی تربیت کا نہایت اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ بظاہر بہت آسان لگتا ہے، لیکن حقیقت میں بڑی ریاضت و جاں فشانی کا طالب ہوتا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے بچوں کے ماہ ناموں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جو کچھ اتار چڑھاؤ کے ساتھ مسلسل جاری ہے۔
اس سلسلے میں ایک قابل قدر اضافہ جنوبی ہند کے ایک چھوٹے سے شہر بھٹکل سے نکلنے والے رسالے ماہ نامہ پھول کے ذریعے ہوا ہے۔ امید ہے کہ یہ رسالہ بچوں کی تربیت میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر و ناقد ڈاکٹر تابش مہدی نے بزم شہباز دہلی کے زیر اہتمام ادب اطفال کے متعلق منعقد ہونے والے علمی مذاکرے کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔
جلسے کے مہمان خصوصی محمد خلیل نے ادب اطفال کے میدان میں اپنی چالیس سالہ خدمات کے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان میں بچوں کا ادب تخلیق کرنا بڑا مشکل کام ہے، کیوں کہ اس میں حوصلہ افزائی کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں۔ اردو والوں کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔
ماہ نامہ صلاح کار کے چیف ایڈیٹر عبدالغفار صدیقی نے ادب اطفال، اہمیت اور طریقۂ کار کے عنوان پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ انھوں نے اپنے مقالے میں بچوں کے رسائل کو زیادہ مفید بنانے کے لیے قیمتی تجازویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کے رسائل کے گٹ اپ اور کاغذ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ہم بچوں کو اپنے رسائل نہیں پڑھوا سکتے۔ ظاہری حسن کے ساتھ جب باطنی حسن بھی ملے گا تو ضرور اچھا نتیجہ سامنے آئے گا۔
مدرسہ سبیل السلام کے مہتمم مولانا جنیدالرحمان ندوی نے قرآن و حدیث کی روشنی میں ادب اطفال کی اہمیت اور اس کے خدوخال واضح کیے۔ انھوں نے کہا کہ بچوں کا ادب زمانے کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے والا بھی ہونا چاہیے اور اس کی اساس تربیت کے نبوی اصولوں پر بھی ہونی چاہیے۔
بھٹکل سے آئے ہوئے وفد کی نمائندگی کرتے ہوئے ماہ نامہ پھول کے ایڈیٹر مولانا عبداللہ ندوی نے اپنے تجربات سے اہل مجلس کو واقف کراتے ہوئے کہا کہ ہم لوگوں نے ماہ نامہ پھول کو ایک رسالے کے طور پر نہیں، بلکہ ایک تحریک کے طور پر شروع کیا ہے۔ اللہ کے فضل سے یہ تحریک روز بروز ترقی کررہی ہے اور اس کے بہت اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔
ہم لوگوں نے پھول کو ایک خاندان میں تبدیل کردیا ہے اور ایسی سرگرمیاں جاری کر رکھی ہیں، جن کی وجہ سے سیکڑوں بچوں ہمارے ادارے سے مستقل جڑے رہتے ہیں۔
سراج عظیم اور حامد علی اختر نے بچوں کے ادب کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا اور وفد کا استقبال کیا۔پروگرام کا آغاز عبدالمقیت ندوی کی تلاوت سے ہوا، جب کہ مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی کی دعا پر جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔