گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان سامنے ہیں۔ ان نتائج نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2014محں جس طرح کی شروعات کی تھی وہ 2017تک بھی اس کو باقی نہیں رکھ سکی اور اس جگہ وہ مکمل طور پر ناکام ہوگئی جس جگہ مودی جی گذشتہ 22سالوں مں سرکار میں تھے اور وہ اپنا گھر بھی نہیں بچا سکی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2017کے گجرات میں150سیٹوں جیتنے کا دعوی کیاتھا ‘لیکن گجرات کے عوام نے بی جے پی کو 99کے پھیرے میں پھنسادیا ہے ‘ جو بی جے پی کے لئے اچھا اشارہ نہیں ہے۔ گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ایک بت تو طئے ہوگئی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی نہ صرف مکمل طور پر فلا پ ہوئی ہے بلکہ دل بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کہ مصداق وہ اپنی ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایسا بلکل نہیں ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی گجرات اسمبلی انتخابات میں جیتی ہو ‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو گجرات اسمبلی انتخابات میں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اخلاقی اعتبار سے وزیراعظم نریندر مودی گجرات کو کھوچکے ہیں۔ وزیراعظم نریند رمودی کی پہ درپہ ریالیاوں کے ساتھ 50مرکزی وزراء کا گجرات میں ہونا اور بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کے وزرائے اعلی کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کی تمام سسٹر آرگنائزشن کی بے مثال طاقت او رمحنت کے باوجو د بھارتیہ جنتا پارٹی گجرات بچانے میں ناکام ہوگئی ۔
گجرات اسمبلی انتخابات کے اعلان سے پہلے جب ہماچل کے انتخابات کا اعلان ہوا ‘ اور اس کے ساتھ گجرات اسمبلی انتخابات نہ کرانے کے کا الیکشن کمیشن نے اعلان کیاتو الیکشن کمیشن کو بھی کافی نکتہ چینیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ الیکشن کمیشن نے اس سلسلہ میں صفائی دیتے ہوئے سیلاب کی وجہ بتائی لیکن ملک کی عوام الیکشن کمیشن کے ا س فیصلے سے مطمئن نہیں تھی ۔ گجرات اسمبلی الیکشن کا اعلان بھارتیہ جنتا پارٹی کے مطابق کیاگیا ۔یہ الزام بھی الیکشن پر عائد ہورہا ہے اور یہ ایک ایسا داغ ہے جس کو دھونے میں وقت لگے گا ۔
کانگریس پارٹی نے نتائج کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہاتھا کہ الیکشن کا اعلان بی جے پی کے لحاظ سے کیاگیا اس کے باوجود بی جے پی کا وزیراعظم کی نشست کو نہ بچانا وکاس کے آئینہ میں داغ کو ظاہرکرتا ہے بلکہ پورا آئینہ ہی داغ دار ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اپوزیشن کو شکست ہوئی ہے بلکہ کانگریس پارٹی کی جانب سے جاری بیان میں بالکل سچ کہاگیا ہے کہ ہم جنگ ہار میں مورچہ نہیں۔ گجرات کے عوام نے وزیراعظم نریند مودی کی تمام پالیسیوں کو مسترد کردیا ہے ‘ گجرات کے عوام نے وزیراعظٹ نریندر مودی کے خلاف اپنا مینڈیٹ دیا ہے اور 22سالوں میں سب سے کمزور سرکاری بنی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے گجرات میں اپنی ناکام جیت کو کامیاب دکھا کر اپنی ان ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی ہے جو اس کو گجرات کے عوام نے وکاس کے ماڈل کو بے نقاب کرتے ہوئے دی ہے۔ گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج پر نظر ڈالیں تو بھارتیہ جنتا پارٹی کو سورت میں16میں سے 15سیٹوں ‘ وڈوڈ را میں 10میں نو سے سیٹیں ‘ راج کوٹ میں 8میں سے چھ سیٹیں ملی ہیں ۔ یعنی پردیش کے چار بڑے شہروں کی 55سیٹوں میں سے بی جے پی کو صرف46سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جو خود کو شہروں کی پارٹی کہتی ہے اور اس کے بارے میں پرچار کرتی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی شہروں میں کبھی نہیں ہارتی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس بارگجرات نے ٹھکرادیا ہے ۔
اگر بڑے تناظر میں دیکھیں تو کانگریس پارٹی کو71نشستیں ملی ہیں جبکہ بی جے پی کو صرف53سیٹوں پر اطمینان کا اظہار کرنا پڑا ہے او ربقیہ لوگوں کو تین سیٹیں ملی ہیں۔ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ گجرات اسمبلی انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کے ترقیاتی ماڈل کو راہل گاندھی اور ان کی محنت نے پوری طرح دنیا کے سامنے لادیا ہے ۔ ا س سلسلے میں راہل گاندھی کے اس ٹوئٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا جو انہو ں نے وزیراعظم نریند رمودی کے ترقیاتی ماڈل کو لے کر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے۔
راہل گاندھی نے کہاکہ کہ مودی جی کا جو ماڈل ہے اس کو گجرات کے لوگ نہیں مانتے ‘ وہ اندر سے کھوکھلا ہے ۔ مودی جی کی ساکھ پر ایک بڑا سوال اٹھ گیا ہے ۔ جسے وہ کہتے ہیں ان کی ٹیم اس کو دہراتی ہے ‘ لیکن ملک ان کی بات نہیں سن رہا ہے۔ گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر او رکانگریس کی سابقہ صدر سونیاگاندھی کے سیاسی مشیر احمد بھائی پٹیل نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ کانگریس پاٹی کے ہار کی ایک اہم وجہہ بوتھ لیول مینجمنٹ کا صحیح طریقے سے نہ ہونا ہے ۔
انہوں نے کہاکہ کانگریس پارٹی صحیح طریقے سے مینج نہیں کرسکی جبکہ اس کے برعکس بھارتیہ جنتا پارٹی بوتھ کو منیج کرنے میں مکمل طور پر کامیاب رہی ۔ یہی بی جے پی اور کانگریس کے درمیان کا بڑا فرق اسمبلی انتخابات میں دیکھنے کو ملا ہے جس پر امید کی جانی چاہئے کہ کانگریس پارٹی ضرور دھیان دے گی اور راہول گاندھی ‘ احمد پٹیل سمیت پوری کانگریس اس پر منتھن ضرورکر ے گی۔مجموعی طور پر گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج گجرات میں وزیراعظم نریندر مودی کے ترقیاتی ماڈل پر ایک سوال ہیں‘ جہاں وہ اپنی سیٹ نہیں بچاسکے وہیں ہماچل پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعلی کے عہدے کے امیدوار پریم کمار دھومل کا اپنا انتخاب ہارجانا بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترقی کے ایجنڈے کو مکمل طور پر ظاہر کرتا ہے۔
اگر دیکھا جاء تو بھارتیہ جنتا پارٹی گجرات او رہماچل دونوں ریاستوں میں انتخابات تو جیت گئی لیکن مورچہ مکمل طور پر ہا رگئی ہے ۔ اب اپوزیشن کی ذمہ دار ی ہے کہ وہ اپنے ذاتی فوائد سے اوپر اٹھ کر کانگریس پارٹی کی قیادت میںآگے ائے او رحکومت کے محاصرے کے لئے گجرات کی ترقی ماڈل کے ساتھ بی جے ی کے وکاس ماڈل کا بھانڈا پھوڑ کرے۔ اس انتخابات میںیہ ثابت ہوگیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں کو کلی طور پر مسترد کردیا ہے اور ان کا بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔انتخابات میں یہ بھی ثابت ہوا کہ ملک کو آئین کے ذریعہ نہ چلاکر پاکستان کے بہانے سے لوگوں کو ورغلانے والوں کو بھی عوام پسند نہیں کرتے ہیں‘ کیونکہ جس سیٹ پر مودی جی نے پاکستان کا مسئلہ اچھالا تھا وہ سیٹ بھی بی جے پی ہارچکی ہے