اترپردیش حکومت نے عدالت میں بابری مسجد کو مسجد مانا ہے مندر نہیں : ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی 

سہارنپور : بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے قومی چیر مین و مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری بابری مسجد کیس کی قانونی کمیٹی کے ترجمان ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے ملی کونسل کی قومی مجلس عاملہ کی ایک روزہ میٹنگ کے اختتام کے بعد نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد میں 1949ء میں مورتیاں رکھی گئی تھیں ۔ اس کے بعد سے آج تک یوپی سرکار نے بابری مسجد کو مسجد تسلیم کیا ہے مندر نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت کے فیض آباد کے ڈی ایم نے بھی یہی مانا ہے او رپولیس کے ایف آئی آر میں بھی یہی بات درج ہے او ریہ بات عدالت کے ریکارڈ میں موجود ہے ۔انہوں نے کہا کہ 1950میں جب یوپی می ں بلبھ بھائی پٹیل کی سرکار تھی ۔اس سرکار نے عدالت میں اپنے جواب میں مسجد تسلیم کی ہے مندر نہیں ۔یہاں کبھی پوجا نہیں کی گئی ۔نرموہی اکھاڑا جو اس کیس میں فریق ہے اس نے بھی عدالت میں بابری مسجد کے پاس کے چبوترے پررام مندر کا دعوی کیا ہے بابری مسجد کی عمارت جہاں تھی اس اس نے کوئی دعوی نہیں کیا تھا ۔ ظفر یاب جیلانی نے کہا کہ اب تک عدالتی کارروائی میں بھی عدالت کا نقطہ نظر بھی یہی رہا ہے کہ جس مقام کو رام مندر کہا جارہا ہے وہاں مسجد تھی مندر نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ۲۰۱۰ء کے ہائی کورٹ کے فیصلہ میں بھی یہ بات موجود ہے اور ابھی تک یوپی سرکار کا عدالت میںیہی موقف ہے جس سے یوپی سرکار نے ابھی تک انکار نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس آستھا او رعقیدہ کا کوئی سوال نہیں ہے۔ جلدفیصلہ سنائے جانے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جس دن سے یہ فیصلہ شروع ہوا ہے اسی دن سے مسلمان اس فیصلہ کو جلد مکمل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1986ء میں بھی ہمارا مطالبہ تھا کہ اس مسئلہ کو جلد سے جلد حل کرلیا جائے ۔او رآج مسلم پرسنل لاء بورڈ کا بھی یہی موقف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس باوجود سپریم کورٹ کو اپنا کام اپنے طریقہ سے کرنے کا پورا اختیار ہے ۔