کرناٹک سے تعلق رکھنے والے مرکزی وزیر اننت کمار ہیگڈے نے گذشتہ دنوں اپنی ریاست کے کو پپل ضلع میں برہمن یو ا پریشد کے پروگرام کے دوران ائین اور سکیولرزم کے تعلق سے جو متنازع بیان دیاتھا ‘ پارلیمنٹ میں سرمائی اجلاس کے دورا ن دونوں ایوانوں میں لگاتار دودنووں تک اپوزیشن کی سخت برہمی او راحتجاج کے ساتھ خود حکمراں بی جے پی کی ان کے بیان سے مصلحت آمیز علیحدگی کے بعد اگرچہ انہوں نے نارضا مندی سے ہی سہی معافی مانگ لی ہے تاہم اس بیان سے بی جے پی کی نیت اور ارادے کا پتہ ضرو چلتا ہے۔ وزیر موصوف نے کہاتھا کہ بی جے پی ائین بدلنے ہی اقتدار میں ائی ہے ۔
لہذاوہ جلد ہی ائین تبدیل کردے گی کیونکہ اس میں ایک لفظ ‘ سکیولر‘ کا استعمال کیاگیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے خود کو سکیولر کہنے والے لوگوں کے لئے بھی قابل اعتراض اور شرمناک زبان کا استعمال کیاتھا۔ انہوں نے کہاتھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اپنے ماں باپ کے بارے میں پتہ نہیں اور جب کوئی کہنا ہے کہ وہ سکیولر ہے تو مجھے اس پر شک ہوتا ہے ۔ پارلیمنٹ میں انہوں یہ کہتے ہوئے انہوں نے معافی مانگی کہ ’’ میرے بیان کا غلط مطلب سمجھا گیا ۔ میں ائین ‘ پارلیمنٹ اور معمار ائین ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کا بے حد احترام کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ یہ اعلی وبرتر ہے۔
تاہم اگر میرے بیان سے کسی کے جذبات کو چوٹ پہنچی ہے تو مجھے اس کے لئے معافی مانگنے میں کوئی عار نہیں ہے‘‘۔دلچسپ او رحیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزیرموصوف اسی ائین کو بدلنے کا عزم ظاہر کررہے تھے جس کی سچی وفاداری اوراطاعت کا حلف لے کر وہ وزیر بنے ہیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ انہو ں نے غیر ارادی طور پر یہ بات کہہ دی ہو۔ انہوں نے اپنی بات کہنے کے لئے پہلے باضابطہ تمہید باندھی‘ سکیولرز م پر گفتگو کی او رپھر عمداً کہاکہ ہم ائین میں تبدیلی کے لئے اقتدار میں ائے ہیں اور ہم اس میں تبدیلی کریں گے۔
ان کی اس گفتگو کا فوری اور اولین مقصد توشاید یہی ہے کہ بی جے پی دیگر ریاستوں کی طرح کرناٹک میں بھی جہاں ائندہ مہینوں میں انتخابات ہونے والے ہیں ‘ فرقہ وارانہ بنیاد پر ووٹروں کو پولرائز کرکے جیتے حاصل کرنا چاہتی ہے کیونکہ یہی اس کا آزمودہ ہتھیار اور حربہ رہا ہے ۔ ابھی گذشتہ ماہ ہی گجرات میں انتخابات ہوئے ‘جس کے دوران بارہا یہ مشاہدہ کیاگیا کہ بی جے پی نے خود وزیر اعظم مودی اور پارٹی صدر امیت شاہ نے بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پید کرنے کے لئے مغلوں کا نام لیا‘ مغل حکمرانوں کا تذکرہ چھیڑا‘ پاکستان کا راگ الابا او رہر وہ طریقہ اختیار کیا‘ جس سے ہندو ووٹ پولرائز ہوسکتے ہیں۔ اب جبکہ کرناٹک میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں تو جان بوجھ کر یہی نسخہ اس ریاست میں بھی اپنانے کی ابتدا کردی گئی ہے۔
جہا ں تک ائین میں تبدیلی کی بات ہے ‘ بی جے پی کا یہ عز م اور ارادہ دنیا نہیں بلکہ ملک کے لوگوں کو تقسیم کرنے کاسنگھ پریوار کا پرانا ایجنڈہ ہے جسے وزیر موصوف نے اپنے لفظوں میں بیان کیاہے۔ ہندوستان کا ایک کثیر مذہبی ‘ کثیر لسانی معاشرہ ہے ‘ جہاں مختلف عقائد کے لوگ بستے ہیں‘ ان کی زبانیں الگ الگ ہیں ‘ ان کے پہناوے ایک جیسے نہیں ہیں‘ ان کا رہن سہن جداگانہ ہے اور معاشرہ کا یہی تنوع ہندوستان کو ایک خوبصورت چمن بنایا ہے‘ جس میں الگ الگ رنگوں اور خوشبوؤں کے پھول اپنے حسن اور بوباس سے معاشرہ کو حسن بخشتے ہوئے معطر کررہے ہیں۔
پوری دنیا بھی ہمیں اسی لئے بنظر تحسین دیکھتی ہے کہ ہم کثرت میں وحدت کی ایک خوبصورت عملی تصویر پیش کرتے ہیں۔ہمارے ائین کے معماروں کے پیش نظر ایک ایسا جامع نظام بنانا مقصود تھا جو وطن کی اس بے نظیر خوبصورتی کو قائم رکھ سکے اور مختلف رنگوں کے موتی کو ایک دھاگے میں پروئے رکھے ۔ چنانچہ انہو ں نے ملک کے لئے ایک سکیولر ائین کی تدوین کی اور ملک کے تمام شہریوں کو ان کے عقائد ‘ زبان ‘ علاقے ‘ رنگ ‘ نسل ‘ ذات پات سے قطع نظر برابری کا حق دیا اور سب کو اپنے اپنے عقائد او ر کلچر کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی بھی دی۔
اب بی جے پی کے پیش نظر کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں جیت کا نشانہ ہے ‘ جس کے لئے اس نے ائین میں تبدیلی کرنے اور ائین سے لفظ سکیولر ہٹانے کا شوشہ چھوڑ یا ہے ۔ اپوزیشن کے شور مچانے سے بھلے ہی اس نے سردست اپنے قدم پیچھے کھینچ لئے ہیں ‘لیکن یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ وہ اس مدعے کو فرامو ش کردے گی ‘ کیونکہ ائین کو تبدیل کرکے ہی وہ اپنی ہندو توہر مبنی ائیڈیالوجی کو مقام انتہا تک پہنچا سکتی ہے۔ ابھی ایسا کوئی قدم اٹھانے سے و ہ محض اسی لئے گریز کررہی ہے کہ راجیہ سبھا میں اسے مکمل اکثریت حاصل نہیں ہے۔
جس دن یہ اڑچن دور ہوگی ‘ بی جے پی حکومت ملک کے ائین کو تبدیل کرنے اور ملک کو ہندو راشٹرا میں بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گی۔ اس خطرے کو سیکولر اپوزیشن جماعتوں کے مضبوط اتحاد سے ہی روکا جاسکتا ہے ‘ لیکن اس کے لئے انہیں ذاتی مفادات سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاہماری سکیولر سیاسی جماعتیں متحد ہوسکیں گی؟۔