’آنکھ میںآنکھ ڈال کر پوچھوں گی کیا تم یہ جرم کیاہے ‘کتھوا عصمت ریزی او رقتل کیس کے ملزم کھاجوراؤ کی منگیتر رینو شرما

کتھوا۔ کرائم برانچ کی چارچ شیٹ کے مطابق دیپک کھاجوریہ وہی شخص ہے جو قتل سے قبل’’ آخری مرتبہ‘‘ مسلم بکیروالا قبائیلی لڑکی کی عصمت ریزی کرناچاہتا تھا۔چوبیس سال کی رینو شرما اپنے مستقبل کے فیصلے سے قبل کتھوا کی جیل جانا چاہتی ہیں۔

وہ اپنے منگیتر دیپک کھاجوراؤ سے بات کرنا چاہتی ہے‘ جو کہ ایک مقامی پولیس والا ہے اور راسنا گاؤں میں ایک اٹھ سال کی معصوم کی عصمت ریزی اور قتل کے کیس میں جیل میں بند ہے۔پوسٹ گریجویٹ کی طالب علم شرما نے کہاکہ ’’ میں اسکی آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر پوچھوں گی کیااس نے یہ جرم کیاہے۔

میں جانتی ہوں وہ مجھ سے جھوٹ نہیں بولے گا۔ اگر وہ انکار کرتا ہے تو میں اس کی واپس لوٹنے تک انتظا ر کرونگی ‘ اگر نہیں تو میں اپنے والدین سے کہہ دونگی کہ شادی کے لئے دوسرا رشتہ دیکھیں‘‘۔مگر شرما نے اب تک بھی جیل جانے سے انکار کیا ہے ۔

کھاجوریہ کی ماں درشنی دیوی نے کہاکہ ’’ اسے جیل جانے دینا مناسب نہیں ہوگا۔ میں اب تک بیٹے سے ملنے نہیں گئی ہوں‘‘۔ پچھلے سال ڈسمبر میں شرما کی 28سالہ کھوجوراؤں سے سگائی ہوئی ہوئی تھی ۔ دونوں اپریل26کے روز شادی کرنے والے تھے مگر کھجوراؤ جیل میں ہے ۔

شادی اب غیر یقینی صورتحال اختیار کرچکی ہے۔ کرائم برانچ کی چارچ شیٹ کے مطابق دیپک کھاجوریہ وہی شخص ہے جو قتل سے قبل’’ آخری مرتبہ‘‘ مسلم بکیروالا قبائیلی لڑکی کی عصمت ریزی کرناچاہتا تھا۔اپنا پیرلڑکی کے گلی پر رکھ کر اس کو مارنے کی مبینہ کوشش کی بھی مگر ناکام ہوگیا

۔شرما نے کہاکہ وہ نہیں مانتی کہ کھاجوراؤ کسی معصوم کی عز ت لوٹنے اور قتل کرنے کا اہل ہے۔ شرما کی یہ رائے سگائی کے کچھ مہینوں کے دوران کچھ وقت کی ٹیلی فون پر بات چیت کی بنیاد پر ہے۔یاد کرتے ہوئے شرما نے کہاکہ ’’ میں نے سگائی کے روزکچھ فاصلے سے اس کو دیکھا تھا ۔

اس کے بعد ہم نے فون پر بات کی جس کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ لوگ کس طرح پولیس کی شبہہ کو متاثر کرکے پیش کرتے ہیں۔ اس نے مجھ سے گذار ش کی تھی کہ ویڈیو کالنگ پر ہم بات کریں گے میں نے انکار کردیا۔

اس نے زور بھی نہیں دیا‘‘۔ شرما نہ تو اس کو قصور وار ٹہرارہی ہے اور نہ ہی کلین چٹ دے رہی ہے۔ شرما نے کہاکہ ’’میں حقائق سے بے خبر ہوں۔ حقائق اسی وقت سامنے ائیں گے جب سی بی ائی اس کیس کی جانچ کریگی‘‘۔

کھاجوراؤں نے چار سال قبل پولیس فورسس میں بھرتی ہوا اور اسپیشل پولیس فورس کاحصہ بن کر ہیرا نگر پولیس اسٹیشن میں متعین کردیاگیا او راسی پولیس اسٹیشن کے حدود میں عصمت ریزی اور قتل کا یہ واقعہ پیش آیا ۔

ایک پولیس والے کا بیٹا کھاجوراؤ بڑی موچھوں اورہلکی داڑھی کے ساتھ رائیل انفلیڈ گاڑی پر سوار قریبی گاؤں کی سڑکوں پر گھومتا جس میں راسانا کا وہ گاؤں بھی شامل تھا جہاں پر یہ گھناؤنہ جرم انجام دیاگیا۔

پولیس کے مطابق کھاجوراؤکا بکرو ال کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا ۔ اس کی ماں او ربہن کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ واقعہ سے قبل او ردوسری مرتبہ واقعہ کے بعد جنور ی میں کھاجوراؤ او ربکروال طبقے کے لوگوں میں مدبھیڑ ہوئی تھی۔

ملزم کھاجوراؤ کی بہن شیوانی نے کہاکہ ’’ کچھ قبل بکروال کی کچھ عورتوں نے اپنی بکریاں ہمارے کھیتوں میں چھوڑ دی تھی ۔ جب کھاجوراؤ نے اعتراض کیاتو اس کے ساتھ بحث کی گئی اورمعاملہ وہیں رفع دفع ہوگیا‘‘۔

دوسری مدبھیڑ اس وقت ہوئی جب لڑکی کی نعش ملنے کے دوسرے روز 18جنوری کو بکر وال احتجاج کررہے تھے ۔ کھاجوراؤ کی ماں نے مبینہ طور پر کہاکہ ’’ اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے اس نے احتجاجیوں سے کہاکہ وہ سڑک پر رکاوٹ کھڑی نہ کریں۔

جس کے جواب میں احتجاجیوں نے موٹر سیکل کی چابی چھین لی ۔ احتجاجیو ں کے لیڈر کی اس پر آنکھ لگی ہوئی تھی اس کے بعد ہی کھاجوراؤ کو ملزم بنایاگیا‘‘۔

اس جرم میں شامل چار پولیس جوانوں میں سے ایک کھاجوراؤ ں ہے ۔ جبکہ دیگر تین ملزمین پر رشوت لے کر کیس کو دبانے کا الزام ہے ‘ کھاجوراؤ مبینہ طور پر راسانا سے بکر وال قبائیلوں کو بھاگنے کے منصوبہ میں اہم رول اد اکرنے والا بھی مانا جاتاہے۔

کرائم برانچ ایک سینئر عہدیدار نے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر کہاکہ ’’ لڑکی کو اغوا کرنے کے لئے ایک پندرہ سال کے لڑکے کا استعمال کھاجوراؤ نے کیا ہے ۔ اور اس نے مذکورہ بچے کو اس کے بدلے میں بورڈ امتحانات میں مدد کرنے کا بھی وعدہ کیاتھا‘‘