ایک ملین پاؤنڈ اب 35ملین پاؤنڈ ہوگئے ‘ہندوپاک حکومتوں کے علاوہ کراچی میں مقیم شخص بھی حصہ کا دعویدار
حیدرآباد ۔ 6 ۔ فروری (سیاست نیوز) حیدرآباد دکن کے آخری فرمانروا آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں کی جانب سے لندن کے بینک میں 7 دہے قبل جمع کردہ رقم پر تنازعہ برقرار ہے۔ یوں تو نظام کے کئی وارثین اس رقم کیلئے اپنی دعویداری پیش کر رہے ہیں۔ تاہم کراچی میں مقیم ایک شخص نے خود کو نظام کا وارث قرار دیتے ہوئے 2934 کروڑ روپئے کی رقم میں اپنی حصہ داری کا دعویٰ کیا ہے۔ نظام حیدرآباد کا شمار ماقبل آزادی ملک کے امیر ترین حکمرانوں میں ہوتا ہے اور ان کی جانب سے رائل بینک آف اسکاٹ لینڈ میں جمع کردہ رقم پر ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اپنی دعویداری پیش کرچکی ہیں اور اس سلسلہ میں برطانیہ کے ہائی کورٹ میں تنازعہ زیر دوران ہے۔ بتایا جاتاہے کہ اس رقم کیلئے طویل قانونی لڑائی کے درمیان کراچی میں مقیم ایم علی الدین خاں نے خود کو نظام کا وارث قرار دیتے ہوئے رقم میں اپنے حصہ کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ رقم ابتداء میں نیشنل ویسٹ منسٹر بینک میں جمع کی گئی تھی جو اب رائل بینک آف اسکاٹ لینڈ کے نام سے مشہور ہے ۔ ایک ملین پونڈ بینک میں جمع کئے گئے تھے جو بتایا جاتا ہے کہ نو تشکیل شدہ مملکت پاکستان کی مدد کیلئے تھے۔ یہ رقم اس طویل مدت میں سود کے ساتھ بڑھ کر 35 ملین پونڈ ہوچکی ہے۔ علی الدین خاں نے دعویٰ کیا کہ شرعی قانون کے مطابق انہیں نظام کی رقم میں سے حصہ ملنا چاہئے ۔ ان کا یہ دعویٰ اس وقت منظر عام پر آیا جب حالیہ عرصہ میں برطانیہ کی ایک عدالت نے ہندوستان کے اس دعویٰ کو مسترد کردیا کہ مذکورہ رقم پر پاکستان کا کوئی حق نہیں ہے ۔ ہندوستان کا کہنا ہے کہ یہ رقم حیدرآباد کے عہدیداروں نے ریاست کے انڈین یونین میں انضمام یعنی 17 ستمبر 1948 ء کے تین دن بعد جمع کرائی ہے ، لہذا یہ رقم ہندوستان کی ہے۔ پاکستان کے محکمہ احتساب نے میل ٹوڈے کو اس بات کی توثیق کی کہ نظام کے وارث کی حیثیت سے درخواست موصول ہوئی ہے اور اس سلسلہ میں اندرون ایک ماہ کوئی فیصلہ کیا جائے گا ۔ نظام کے وارث کا یہ کہنا ہے کہ لندن کے بینک میں جو رقم جمع کی گئی وہ نظام کی شخصی دولت ہے، لہذا انصاف کا تقاضہ ہے کہ یہ وارثین کو ملنی چاہئے ۔ 1967 ء میں آصف سابع کے انتقال کے بعد ان کے ارکان خاندان نے عدالت کے باہر تصفیہ کے ذریعہ یہ رقم حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔ دستاویزات میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ یہ رقم اس وقت منتقل کی گئی جب بانی پاکستان محمد علی جناح کے انتقال کے فوری بعد ہندوستانی فوج نے حیدرآباد پر کارروائی کا آغاز کیا تھا ۔ حیدرآباد کے فینانس منسٹر معین علی اور ان کے لندن میں نمائندے میر علی نے یہ رقم منتقل کی تھی ۔ یہ معاملہ اس وقت مزید تنازعہ کی صورت اختیار کرگیا ، جب آصف سابع عثمان علی خاں نے دعویٰ کیا کہ رقم کی ادائیگی غیر مجاز ہے اور اس پر پاکستان کو کوئی حق نہیں۔ آصف سابع کے اس دعویٰ کے بعد بینک حکام نے رقم کو منجمد کردیا اور کہا کہ اس وقت کہ جب تک حقیقی دعویدار اپنا دعویٰ ثابت نہیں کرتے ، وہ رقم کو منجمد رکھیں گے ۔ 1957 ء میں ہاؤز آف لارڈس نے اپنے فیصلہ میں پاکستان ، نظام حیدرآباد اور لندن بینک کے درمیان عدالت کے باہر تصفیہ کی تجویز پیش کی۔ کراچی میں مقیم نظام کے وارث کا کہنا ہے کہ اس وقت تک ہندوستان رقم کے بارے میں منظر پر نہیں تھا لیکن 2013 ء میں پاکستان نے رقم حاصل کرنے کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جس کے بعد ہندوستان بھی قانونی لڑائی میں شمولیت کیلئے مجبور ہوگیا۔ اس طرح گزشتہ 7 دہوں سے لندن میں محفوظ نظام کی خطیر رقم پر مختلف گوشوں سے دعویداری اور قانونی لڑائی جاری ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ 2934 کی رقم میں کس کس کو حصہ ملے گا۔