نئی دہلی: آسام میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۳۴ فیصد ہے۔ان میں اکثریت بنگال سے تعلق رکھتی ہے ۔جو گذشتہ ایک صدی سے یہاں بسی ہوئی ہے۔ان لوگوں میں بیشتر غریب ،ان پڑھ او رمزدور ہیں ۔مگر آر ایس ایس اور بی جے پی کا کہنا ہے کہ آسام میں لاکھوں غیر قانونی بنگلہ دیشی آکر بس گئے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے گذشتہ دو عشرے سے ان لوگو ں کو ڈی ووٹر (مشکوک شہری) لسٹ میں نام لکھنا شروع کیا ہے۔جو شہریت کے دستاویزات اور ثبوت پیش نہیں کر سکے۔غیر قانونی بنگلہ دیشی باشندوں کی شناخت کے لئے سپریم کورٹ کی نگرانی میں آسام کے سبھی شہریوں کی ایک فہرست تیار کی جارہی ہے ۔
نیشنل رجسٹر فار سٹیزنس ( این آر سی) کی حتمی فیصلہ کی فہرست جون میں جاری کی جائے گی۔این آر سی کے سربراہ پرتیک نے کہاکہ شہریوں کی اس فہرست میں ان لوگوں کو شامل نہیں کیا جائے گا جنہیں ڈی ووٹر یاغیر ملکی قراردیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سبھی شہریوں کے فیملی کی جانچ ہو رہی ہے۔اس کے علاوہ انتیس لاکھ خواتین نے پنچایت سرٹیفکیٹ دی ہیں ان کی بھی گہرائی سے چھان بین ہورہی ہے۔
پرتیک نے بتایا کہ اس کے نتیجہ میں کتنے لوگ شہریت اور قومیت سے باہر جا نے ہوجائیں گے یہ بتا نامشکل ہے۔یہ کام ایک امتحان کی طرح ہے۔اس کا پہلے سے نتیجہ بتا نا مناسب نہیں ۔لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس کام کے بعد جو بھی تعداد سامنے آئیگی وہ بالکل درست ہوگی۔
سیول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ شہریوں کے حتمی فہرست آنے سے لاکھوں بنگالی مسلم بے وطن ہوجائیں گے۔جسٹس فارم عبدالباطن کہتے ہیں کہ ڈی ووٹر کی تعداد تقریبا پانچ لاکھ ہے اور ان بچوں کی تعداد پندرہ لاکھ ہے۔ہمیں اندیشہ ہے کہ کم از کم بیس لاکھ بنگالی نسل کے باشندے شہریت اور قومیت سے محروم ہو جائیں گے۔