آسام میں میانمار جیسے حالات پیدا کرنے کی کوشش

دہلی ایکشن کمیٹی فارآسام کے زیراہتمام منعقدہ پریس کانفرنس میں صدر جمعتہ العلماء ہند مولانا ارشد مدنی کا بی جے پی پر سنگین الزام‘ سی پی ائی ایم کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری نے کہاکہ پنچایت سرٹفکیٹ قبول کرنا ہی مسئلہ کا حل‘ 15نومبر سے سپریم کورٹ میں مقدمہ کی مسلسل سماعت ہوگی
نئی دہلی۔آسام کے موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صدر جمعتہ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے بی جے پی پر زبردست حملہ کیا۔

انہو ں نے کہاکہ بی جے پی حکومت آسام میں میانمار جیسے حالات پیدا کرنا چاہتی ہے لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھ رہی ہے کہ روہنگیا کا مسئلہ دوچارلاکھ کا ہے لیکن آسام میں80لاکھ ہندوستانی شہریوں کا مسئلہ ہے چنانچہ آسام میں اگر روہنگیا جیسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تواس کے خطرناک نتائج ہوں گے جبکہ ہم نہیں چاہتے کے ملک کے امن وامان کوآگ لگے۔

یہاں کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا میں دہلی ایکشن کمیٹی فار آسام ( ڈی اے سی اے) کی جانب سے مشترکہ پریس کانفرنس او رمیٹنگ کا اہتمام کیاگیا جس میں مولانا ارشد مدنی کے علاوہ سی پی ائی ایم کے سکریٹری جنرل سیتا رام یچوری ‘ سوراج انڈیا کے قومی صدر یوگیند یادو‘آسام کے پروفیسر ہرین گوہین ‘ پروفیسر اپوروا آنند ‘ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ پرتاب سنگھ باجوا سمیت کئی ایہم شخصیات نے شرکت کی اور اپنے خیالات پیش کئے۔ مولانا مدنی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہاکہ آسام کا مسئلہ بہت حساس ہے۔

انہو ں نے کہاکہ حکومت او راپوزیشن آسام میں تحریک چلانے والے آسو جیسی تنظیموں کی رضامندی سے 1985میںیہ معاہدہ کرلیاتھاکہ آسام میں شہریت کی بنیاد 25مارچ1971کو مانا جائے گی لہذا جو شخص اس تاریخ سے قبل آسام میںآسا م میں اکر بس گیااور اس کے پاس قانونی دستاویزہوں گے اسے یہاں کا شہری تسلیم کیاجائے گا تو اس پر سیاست کیوں ہورہی ہے؟

انہوں نے کہاکہ اس معاہدے کے بعد آسام میں امن قائم ہوگیاتھا لیکن فرقہ پرست طاقتوں نے اس مسئلہ کو2009میں پھر زندہ کردیا او رسپریم کورٹ میں پی ائی ایل داخل کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ شہریت کی بنیاد 25مارچ1971کی بجائے 1951کی ووٹرلسٹ کو بنایاجائے۔انپوں نے کہاکہ اتنا ہی نہیں بلکہ اس درخواست میںآسام معاہدے کی قانونی حیثیت او رپارلیمنٹ کے ذریعہ شہریت ایکٹ1955میں سکیشن 6اے کے اندراج کو بھی چیالنج کیاگیا جس کی وجہہ سے لاکھ لوگوں کی شہریت خطرے میں پڑگئی ۔مولا نامدنی نے کہاکہ فرقہ پرست جماعت کا مطالبہ ہے کہ 1950کے بعدآسام میںآنے والوں کو شہری نہ مانا جائے۔ انہو ں نے کہاکہ یہ مطالبہ صوبہ اور ملک میں انتشار پیدا کرنے والا ہے۔

انہو ں نے کہاکہ جب سے صوبہ میں بی جے پی کی حکومت ائی ہے اس نے مسئلہ کو ہوا دینی شروعی کردی اور خواتین کو ملنے والے پنچایت سرٹیفکیٹ کو ماننے سے انکار کردیا جس سے 48لاکھ آّام کی خواتین متاثر ہوئیں جن میں غیر مسلم بھی ہیں تاہم غیر مسلم عورتوں کا مسئلہ تقریبا حل ہوگیا ہے لیکن مسلم عورتوں کا معاملہ اب بھی باقی ہے۔انہوں نے کہاکہ ہندوؤں کو کہاجارہا ہے کہ 2014تک کے ثبوت دیکھائیں تو انہیں شہریت ملے گی لیکن مسلمانوں کو1951کا سرٹیفکیٹ دیکھانا پڑے گا۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کے اس رویہ سے 75سے80لاکھ آسام کے ہندوستانی شہری اپنی شہریت کھودیں گے تو سوال یہ ہے کہ وہ کہاں جائی ں گے؟

انہوں نے کہاکہ ہمارا مرکزی اور صوبائی حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ مذہبی بلکہ انسانی بنیاد پر مسئلہ کو حل کریں اور سب کو جینے کا حق دیں انپوں نے کہاکہ ان آر سی کے کام کو فوری طور پر مکمل کیاجائے ۔ ستیار ام یچوی نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہییں کہ آّام کا مسئلہ بہت ہی نازک ہے اور اس کو ایمانداری سے حل کیاجانا چاہئے۔

انہوں نے کہاکہ حکومت او رعدالت دونوں کو پنچایت سرٹیفکیٹ تسلیم کرنا چاہئے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔انہوں نے اگر ایسا نہیں کیاگیا تو ملک میں بہت بڑا مسائل پیدا ہوجائیں گے۔

پروفیسرہرین گوہین نے کہاکہ آسام کا مسئلہ دراصل پورے ملک کا مسئلہ ہے اور اس لئے سماعت سے پہلے ہم اس مسئلے کوملک کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ واضح رہے کہ 15نومبر سے اس مسلئے پر سپریم کورٹ میںیومیہ اساس پر سماعت ہونے جارہی ہے