آسام میں عصمت ریزی کا یہ واقعہ جس کی طرف کتھوا کے حوالے سے لیڈران توجہہ دلارہے تھے

ناگاؤں عصمت ریزی۔ مذکورہ پولیس کی ایف ائی آر میں کہاگیا ہے کہ لڑکی کو گھر میں باندھ کر اجتماعی عصمت ریزی کی گئی او ر23مارچ کے روز کیروسین چھڑ کر اس کو آگ لگادی گئی۔ متاثرہ کا رشتے کا بھائی او رتین لوگ ملزمین میں شامل
آسام۔کتھوا عصمت ریزی ا ور قتل کے واقعہ پر فرقہ وارانہ نوعیت کی حساسیت جب سارے ملک میں پھیل گئی تو 13اپریل کے روز بی جے پی کی قومی ترجمان میناکشی لیکھی نے آسام میں اسی طرح کے واقعہ پر اصلی ملزم’’ ذاکر حسین‘‘ کانام لیا۔ لیکھی نے کہاکہ ’’ مگر کچھ لوگ اس مسئلے پر خاموش ہیں اور دیگر مسائل کوغلط انداز میں پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘‘۔

نا کتھوا اور نہ ہی آسام کے ناگاؤں ضلع کے گاؤں سے تعلق رکھنے والی بارہ سال کی متاثرہ کے والد کے ملزمین میں کوئی عقیدہ جڑا ہو ا ہے۔ اپنی بیٹی کے جھلسی ہوئے جسم کو دیکھ کر جو پہلا لفظ اس بات کے زبان سے نکا ہے وہ یہ تھا کہ’’ اگر اللہ کو مجھ سے ہمدردی ہے تو ‘ اس کو بات کرنے کی اجازت ملے گی‘‘۔

انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے والد نے کہاکہ کتھوا کے متعلق اس نے ’’ کچھ دل کو دہلادینے والی باتیں سنی‘‘ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ’’ مگر میں تشویش میں ہوں کہ ایسا کس طر ح میرے ہی پڑوسیوں اور گھر والوں کے ہاتھوں ہوسکتا ہے؟‘‘۔

Image Courtesy
Hinudstan Times

ناگاؤں عصمت ریزی۔ مذکورہ پولیس کی ایف ائی آر میں کہاگیا ہے کہ لڑکی کو گھر میں باندھ کر اجتماعی عصمت ریزی کی گئی او ر23مارچ کے روز کیروسین چھڑ کر اس کو آگ لگادی گئی۔ متاثرہ کا رشتے کا بھائی او رتین لوگ ملزمین میں شامل۔ اس میں کہاگیا ہے کہ متاثرہ نے ناگاؤں میں اسپتال کولے جانے سے قبل ملزمین کے ناموں کا انکشاف کیاتھا

Image Courtesy
Hinudstan Times

بعدازاں کو گوہاٹی میڈیکل کالج منتقل کیاگیا جہاں پر وہ زخموں سے جانبر نہ ہوسکی۔ ایف ائی آر کے مطابق متاثرہ پانچویں جماعت کی طالب علم تھی جس کی تین مرتبہ عصمت لوٹی گئی‘ او راس گھناؤنے جرم کو انجام دینے والا کوئی نہیں اس کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا والا بارہ سالہ کے دوست کے بشمول 11سال کارشتہ کا بھائی اور19سال کا پڑوسی ذاکر حسین شامل ہے۔

تینوں کو گرفتار کرلیاگیا ہے حسین ناگاؤں کی جیل میں قید ہے جبکہ دونو ں نابالغ قیدیوں کو جورہات کے ابزرویشن ہاوز میں رکھاگیاہے۔متاثرہ کے والد یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ایک مزدور ہیں نے کہاکہ اس شام کو وہ کھیتوں میں کام کررہاتھا اسی وقت ان کی بیوی اور بڑی بیٹی چائے لے کر وہاں پر ائے۔ اسی دوران ان کی چھوٹی بیٹی کو برباد کیاجارہاتھا۔والد نے کہاکہ ’’ میں نے اپنی بیوی کیساتھ چیخ وپکار شروع کردی‘ اس کوگھر میں اکیلا چھوڑ کر تم لوگ یہاں کیوں آگئے‘ اسکول سے آنے کے بعد وہ بھوکی ہوگی‘‘۔

یہ تقریبا1:30بجے کی بات ہے۔ جب وہ گھر پہنچے تو انہیں احساس ہوا ہے کہ وہا ں پر کچھ واقعہ پیش آیا ہے۔ گھر کے باہر ایک سو لوگوں پر مشتمل ہجوم کھڑا ہوا تھا۔والدنے کہاکہ ’’ مگرکوئی میری بیٹی کی قریب جانے کی ہمت نہیں کرررہاتھا‘‘۔ معصوم پلنگ پر پڑی ہوئی تھی ‘ جسم کا ہر حصہ جھلسہ ہوا تھا۔

والد نے کہاکہ ’’ اس کا منھ جھلسہ ہوا نہیں تھاکیونکہ اس کے منھ کو باندھ دیاگیاتھا اور یہی وجہہ تھا کہ وہ بات کرنے کے قابل تھی‘‘۔ والد کی دائرکردہ ایف آئی آر کے مطابق متاثرہ جب اسکول سے گھر دوپہر کے وقت واپس ائی تو اس کا تعقب کرتے ہوئے تینوں ملزمین حسین کی نگرانی میں گھر ائے۔دیہات کے ایک ساکن ایس اسلام نے کہاکہ ’’ لڑکی اس کے بارہ سال کے ساتھ طالب علم کی دوست تھی‘‘۔

دیگر لوگوں نے کہاکہ حسین اصل ملزم ہے جس کا تعلق بکھرے ہوئے خاندان سے ہے اور وہ ’’ ہمیشہ گانجے کااستعمال کیا‘‘ کرتا تھا۔ایف ائی آر میں کہاگیا ہے کہ حسین نے پیچھے سے لڑکی کو پکڑا اور اس کا منھ باندھا‘ اس کے بعد زمین پر گرا اس کی عصمت لوٹی ۔ باقی دو مبینہ ملزمین نے بھی اس کے بعد اپنی اپنی باری سے استفادہ اٹھایا۔ پھر حسین نے کیروسین کا چھڑکر لڑکی کو آگ لگادی‘‘۔ والد نے کہاکہ ’’ وہ تمام چیزوں سے واقف تھا کیونکہ ہم پڑوسی ہیں۔

او رہمارے گھر ہمیشہ کھلے رہتے ہیں‘‘۔پڑوس کے کمرے میں متاثرہ کی بھابھی اپنے ایک ہفتہ کے بچے کو لے کر محوخواب تھی ۔ اس نے کہاکہ ’’ باہر آوازیں سنی تو میری آنکھ کھلی ‘‘۔ انہوں نے مزیدکہاکہ’’میں نے عقب سے دیکھا کہ تین لڑکے بھاگ رہے تھے۔ میں روم میں داخل ہوئی ‘ میں نے اپنی نند کو دیکھتے ہی اس پر پانی چھڑکا‘‘۔ گھر میں چار بھائی اور بہنوں میں متاثر ہ سب سے چھوٹی تھی۔

گاؤں کے ایک شخص کا کہنا’’ وہ نہایت خوش مزاج لڑکی تھی‘وہ ہر ایک کے احوال معلوم کرتی تھی‘‘۔ اسکول جاتی اور واپس آتی ‘ہوم ورک کرتی اور اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ وقت گذارتی۔ایس پی ناگاؤں شنکر رائمیدھی نے کہاکہ ’’ معاشی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو گاؤں کا شمار متواسط لوگوں میں تھا‘‘ ۔ متاثرہ کے والد یومیہ چار سو روپئے کمالیتے۔ متبادل طور پر وہ کھیتوں میں کام کرتے یا پھر ترکاری فروخت کیاکرتے تھے۔

گاؤں دہل گیا ہے مگر ایک الجھن بھی ہے‘کچھ عورتیں اب خود کو متاثرہ محسوس کررہی ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہاکہ ’’ حسین اور اسکے گھر والے غنڈے ہیں۔ ان کے ڈرسے ہم اپنے گھر سے باہر قدم نکالنے کے لئے بھی ڈر رہے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ غنڈے ہمیں چین وسکون کی نیند سونے نہیں دے رہے ہیں‘‘۔ جب انڈین ایکسپریس کی ٹیم گاؤں پہنچی تو جمعرات کے روز ہم نے دیکھا کہ اسکول سے لگ کر ایک ہی اینٹوں سے تیار نابالغ کا ویران گھر تھا جس کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھی اور میدان میں سرخ ٹوٹی کرسی پڑی ہوئی تھی ۔

گھر والے واقعہ کے بعد خود کی فرارہوگئے تھے ۔ واقعہ کے تین دن بعد پولیس نے پڑوس کے گاؤ ں سے اس کے والدین کو گرفتار کیا اور اسی روز نابالغ کی بھی گرفتاری عمل میں ائی۔ایک پڑوسی نے دعوی کیا ہے کہ 2014میں حسین ان کے گھر میں توڑ پھوڑ مچائی تھی۔ متاثرہ لڑکی کے والد نے کا دعوی ہے کہ’’ اس کے والد پر کئی مقدمات درج ہیں جس میں عصمت ریزی بھی شامل ہے‘‘۔

دیگر لوگوں نے یہ بھی دعوی کیاہے کہ حسین کی بیوی اپنے تین بچوں جس میں ایک نومولود بھی شامل کو لے کر گھر چھوڑ کے اس لئے چلی گئی ہے کیونکہ اس کا سسر تنگ کررہاتھا۔اسلام نے کہاکہ ’’ گاؤں میںیہی ایک خاندان ہے جس کی ذاتی زمین ہے ‘ یہی وجہہ ہے کہ یہ تمام واقعات رونما ہونے کے بعد وہ گاؤں چھوڑ کر نہیں گئے‘‘۔ ایک پولیس افیسر نے کہاکہ گاؤں کا تعلیمی معیار بھی خراب ہے ’ ’ ضلع میں عورتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

انہیں سر ہم بستری کے لئے اور بچے پیدا کرنے والی مشین کے طور پر استعمال کیاجاتا ہے ‘‘۔تاہم ہر روز طلبہ کی اسکول میں گھٹتی حاضری تشویش کا سبب ہے۔

ایک ٹیچر نے کہاکہ ’’ 179میں سے 135طلبہ ہی حاضر ہورہے ہیں‘انہوں نے اعتراف کیاکہ واقعہ کے متعلق جب کبھی وہ سونچتی ہیں ان کا دل دہلا جاتا ہے۔ ’’ اس روز صبح کے وقت میں نے درس دیاتھا‘‘۔اسلام نے کہاکہ’’ یقیناًیہ ایک منصوبہ بندجرم ہے۔ مذکورہ لڑکوں نے ایسے وقت یہ جرم انجام دیا ہے جب گاؤں کے تمام مرد نمازکے لئے مسجد گئے ہوئے تھے‘وہ جمعہ کاروز تھا‘‘۔