آسام ۔ ہم میں سے بہت سے اس بات سے اچھی طرف واقف ہیں کہ آسام میں تارکین وطن کا مسئلہ ہے۔ مگر پچھلے ہفتہ قومی شہری رجسٹریشن (این آر سی) میں شدید تاخیر کے ساتھ‘ اس مسلئے کو ہم نے بہت زیادہ پیچیدہ بناکر ریاست میں دھماکو حالت کی شکیل دیدی ہے۔آسام کی 3.3کروڑ کی مجموعی آبادی کا بڑا حصہ غیر قانونی تارکین وطن کے معاملے کو نرم ہے جس میں زیادہ تر بنگلہ دیشی ہیں۔
یہ مسلئے اس وقت بڑا ہوگیا غیرقانونی تارکین کے خلاف آسام احتجاج کی وجہہ بنا ‘ جس کا اختتام اگست 1985میںآسام اکارڈ قائم کرنے کے بعد ہوا ۔ یہ آسام اکارڈ پر مہر 1985میں لگی تھی‘ جس پر حکومت ہند اور احتجاج کرنے والے لیڈروں نے دستخط کی تھی۔ مذکورہ 1985آسام اکارڈ‘ پر 33سال قبل دستخط کی گئی تھی ‘ جس پر بالآخر نفاذ اب عمل میں آرہا ہے اور اس کی وجہہ سے پوری نئے مسائل کا مجموعہ سامنے آرہا ہے۔
آسام اکارڈ کے مطابق‘ صرف وہی لوگ جو1971مارچ24سے قبل کے لوگ ہی اپنی انتخابی کردار کو ثابت کرسکتا ہے ‘ اور وہ لوگ جن کی اجداد24مارچ1971سے قبل انتخابی کردار کو ثابت کرتے ہیں وہی این آر سی کی فہرست میں شامل ہونگے۔
ان کے لئے کیا جنھوں نے اس کو ثابت نہیں کرسکے؟یہاں تک کہ انہیں بھی اندازہ نہیں ہے کہ ان کے ساتھ کیاہوگا۔
وہ اپیل کرسکتے ہیں یا وہ جائیداد یا پھر رائے دہی کے حق سے محروم ہوجائیں گے ‘یا پھر انہیں ملک بدر کردیاجائے گا یا پھر کوئی دوسری اسکیم کا اعلان کیاجائے گا۔ اس کی اب تک وضاحت نہیں ہوئی۔
ایسا کہاجارہا ہے کہ کانگریس نے ماضی میں غیر قانونی تارکین وطن کی حوصلہ افزائی کی‘ کیونکہ زیادہ تر غیرقانونی تارکین وطن بنگلہ دیش کے مسلمان ہیں‘جن میں زیادہ تر کانگریس کو ووٹ دیتے ہیں۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ کانگریس نے خود 1985اکارڈ کو کارگرد بنایاتھا‘ تاکہ1971کے امتحان میں جو لوگ ناکام ہوگئے تھے ان کی شہریت کو فعال بنایاجاسکے۔
یقیناًکانگریس نے کبھی بھی این آر سی کو آگے بڑھانے میں کوئی نفاذ نہیں کیاتھا۔ایسی چیزیں تاق میں رہتی ہیں‘ جو عام طو ر پر اچھی نہیں ہیں مگر اکثر ہندوستان جیسے ملک میں احتجاج کے لئے اس کو بہتر انداز میں استعمال کیاجاسکتا ہے۔
این آر ایس کو جانچ میں سنجیدگی کا کام2015سے شروع ہوا ۔جس کے نتیجہ آسام کے چالیس لاکھ لوگوں کو پہلے مسودہ سے باہر کردیاگیا۔ لوگوں کو موقع فراہم کرنے کے بعدقطعی مسودہ اسی سال ڈسمبر میں جاری کئے جانے کا امید ہے۔
جانکار کہہ رہے ہیں کہ غیرملکی لوگوں کے متعلق این آر سی کا موجودہ مسودہ بی جے پی کے ایجنڈہ کے لئے درست ہے جو فی الحال برسراقتدار ہے۔حقیقت کیا ہے کہ اس تمام سرگرمی کے پس پردہ جو مقیم لاکھ لوگوں کی پیشانی پر غیرقانونی تارکین وطن‘ غیر ہندوستانی کا لیبل لگادے گا۔
تصور کریں چالیس سالوں تک مقیم‘ خاندان کی تشکیل عمل میں لانے والے اور پھر ان سے کہاجارہا ہے تم ہم میں سے نہیں ہو۔ایسا ان لوگوں کے ساتھ کیاجارہے جو 1971کی کٹوتی کے بعد 1978میں یہاں ائے اور مقیم ہیں۔ تصور کریں 1971میں جن کے اباواجداد نے ووٹ دیاتھا ان کے پاس ثبوت کے لئے کوئی دستاویز نہیں ہے اور پھر انہیں غیرقانونی قراردیاجارہا ہے۔
این آر سی کو وسعت دینے کے لئے کام کرنے والوں ایجنڈوں کے متعلق تصور کیجئے‘ اور 1960سے نکال کر آپ کے دادا کا نام کسی ایک قیمت کے لئے آپ کو فروخت کررہے ہیں‘ تب تک آ پ غیرقانونی قراردینا نہیں چاہتے ہیں۔
تصور کریں اس امتیازی سلوک او رانسانی حقوق کی خلاف ورزی کا جب کسی کو غیرقانونی قراردیدیا جائے گا‘ بالخصوص اس کاتعلق کسی اقلیتی طبقے سے ہو۔قومیت : حاکمیت اور آسامی لوگوں کے حقوق کی حفاظت کے نام پر ہم ایسا عمل کررہے ہیں جو بہت زیادہ ظالمانہ‘ تقسیم کرنے اور نفاذ میں مشکل ہے ‘ جو حل کے بجائے مزید مسائل کی تشکیل کا سبب بنے گا۔
یہاں تک آسام احتجاج سے مایوس لوگوں کو یہ احساس تھا کہ 1971میں کٹوتی کے بعد ان کی شہریت برقرار رہے گی‘ آسام اکارڈ1985کے محض چودہ سال بعد ان کے سر خطرے کے بادل منڈلارہے ہیں۔ آج ہم اسی اکارڈ کانفاذ عمل میں لارہے ہیں ‘ ہم کٹوتی کی نہیں لاسکتے۔
کیاہم بیہودہ ہیں؟۔ بڑا بھائی بننے او ربڑا دل رکھنے کے لئے ایک موقع ہے۔ اس سے دوبارہ ہمیں اقتدار بھی مل سکتا ہے۔ اب کے لئے آسام کے مخصوص واقعات میں‘ ہمیں این آر سی کے عمل کی دوبارہ جانچ کرنے کی ضرورت ہے‘ اور خصوص کر 1971کی کٹوتی میں ترمیم کام متاثرکرسکتی ہے۔ یقیناًاس مرتبہ ترمیم میں دہائیاں لگنے کی ضرورت نہیں پڑیگی۔
چیتن بھگت کا مضمون