آسارم باپو پر عصمت ریز ی کا جرم ثابت ۔ عمرقید کی سزاء کا اعلان ۔کون ہے آسارام ایک سرسری جائزہ

جودھپور۔ گجرات کے اپنے آشرم میں ایک سولہ سال کی نابالغ لڑکے کے ساتھ عصمت ریزی کرنے کا آسارام اور اس کے چار ساتھیوں پر الزام لگایاگیاتھا۔آسارام کی پیدائش اپریل17سال1941میں پاکستان میں ہوئی تھی اسوقت آسارام کا نام اسیومل سیرومالانی تھا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ اپنے افراد خاندان کے ساتھ احمد آباد منتقل ہوگیاتھا۔ملک بھر میں ہزاروں بھکتوں پر مشتمل خود ساختہ سنت پر عصمت ریزی کے بے شمار الزامات درج ہیں۔

فی الحال آسارام جودھپور کی ایک جیل میں محرو س ہے ‘ جہاں پر حج نے اترپردیش سے تعلق رکھنے والی ایک سولہ سال کی نابالغ لڑکی کے ساتھ پانچ سال قبل عصمت ریزی کا مقدمہ درج کیاگیاتھا۔ہزاروں کروڑ کی دولت کے مالک آسارام کی راتیں جودھپور جیل میں کٹ رہی ہیں ‘ وہ جیل میں پی او ایس سی او ایک کے تحت قید ہے۔

آسارام کی زندگی کا سفر نہایت دلچسپ ہے۔مذکورہ مجرم سنت کا اصلی نام اسیومل سیرومالانی ہے جس کی پیدائش پاکستان کے بیرانی گاؤں ہوئی تھی۔ بتایاجاتا ہے کہ والد کی موت کے بعد ان کے لکڑی او رکوئلہ کا کاروبار آسارم ہی سنبھالا کرتاتھا۔

پھر اچانک فیملی گجرات کے ضلع مہسانا کے وجئے پور گاؤں منتقل ہوگئی۔جوانی کے دور میں آسارم کے بھگوڑے پن کے کئے ایک واقعات بھی ہیں۔پندرہ سال کی عمر میں عین شادی سے قبل آسارام فراری اختیار کرتے ہوئے ایک آشرم میں پناہ لی تھی۔

بعدازاں گھر والوں نے عصمت ریزی کے مجرم آسارام کوسمجھا بوجھا کر گھر واپس بولایا اور اس نے شادی نے کی تھی ‘ جبکہ وہ دوبارہ23سال کی عمر میں گھر سے بھاگ گیاتھا۔ اسی دوران وہ روحانی گرو لیلا شاہ جی مہاراج کے رابطے میں آیا۔

وہ لیلا شاہ جی مہاراج ہی تھے جنھوں نے آسارام کو اپنی شاگردی میں لے کر ہندو مذہب کے متعلق روحانی راستہ دیکھایا۔ اکٹوبر7سال1964میں اس کا نام سنت شری آسارام مہاراج رکھاگیا۔ تاہم لیلا شاہ جی مہاراج کے آشرم سے ذلیل وخوار ہوکر نکالے جانے کے بعد اس نے اپنے ذاتی ہندوازم کے برانڈ کا پروپگنڈہ شروع کردیا۔گجرات کے موترا ٹاؤن سال1972میںآسارام نے اپنا پہلا آشرم اپنے پانچ سے دس ماننے والوں کو لے کر بنایا۔

اتفاق سے جب وہ سورت گیاتھا اس دوران مزید قبائیلی اس کے ماننے والوں میں شامل ہوگئے۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے ملک بھر میںآشرم کی شروعات کاسلسلہ بھی شروع کردیا‘ اور ساتھ میں چالیس گروکل( اسکولس) ‘ پرنٹنگ پریس‘ اور صابن‘ شمپو‘ ادویات پر مشتمل پراڈکٹس کا کاروبار بھی شروع کردیا۔

پولیس کی دائرکردہ چارچ شیٹ کے مطابق آسرام کا ایمپائر 5000کروڑ پر مشتمل ہے۔ آسارام کے ماننے والوں کی بڑھتی تعداد سے متاثر ہوکر سیاست دانوں ‘ کانگریس اور بی جے پی کی حکومتوں نے اس کے پراجکٹس کے لئے اراضیات کی اجرائی کا سلسلہ شروع کردیا۔آسارام کا ہندو ازم کا برانڈدراصل ہندو وید وپرانا کے مطالعہ کے ساتھ کچھ تنتر منتر کا عمل بھی تھا ‘ جس میں کچھ کالے جادو کی چیز یں بھی شامل کردی گئی ۔

آسارام کا یہ روحانی پراجکٹ ہندوستانی آبادی کے ایک بڑی حصہ کی ضرورت بن گیا ہے ۔ اس کی شہرت شمالی ہندوستان کی ہندی بولنے والی آبادیوں او رقبائیلوں میں بڑھ گئی۔

آسارام پر پہلی مرتبہ عصمت ریزی کے الزام نے اس کوراست طور پر قانون کے مدمقابل لاکر کھڑا کردیا‘ دوبچوں کی مسخ نعشیں سمبر تی ندی کے کنارے سے ملی جو موتیراآشرم کے قریب میں ہے۔ نعشیں کچھ اس طرح کی حالت میں ملی کہ جسم کے کچھ اہم اعضاء غائب تھے۔

دوبچوں کے قتل میں پولیس نے2009میں آسارام کے سات فالورس کو حراست میں لے لیاتھا۔ سال2013میں دہلی پولیس نے ایک مقدمہ یہ کہتے ہوئے درج کیاکہ آسارام نے جودھپور کے آشرم میں ایک سولہ سال کی لڑکی کے ساتھ عصمت ریزی کی ہے۔

اس کو 31اگست سال2013کے روز پولیس نے گرفتار کرلیاتھا۔کچھ ماہ بعد حکومت کے اقدامات کے بعد سورت کی دوبہنوں نے خودساختہ سنت کے بیٹے نارائن سائی پر ان کی خطوط پر شکایت درج کرائی۔

ان لوگوں نے کہاکہ وہ آسارام کے فالورس میں تھے جس نے اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر بار بار ہماری عزت لوٹی اور آشرم میں ہی محدود کرکے رکھ دیا۔اس کیس کے تین اہم گواہوں کا قتل کردیاگیا جبکہ نو گواہوں پر حملے کئے گئے۔

مبینہ طور پر آسارام کا قریبی مانے جانے والے کارتک ہلدار کو چھتیس گڑ کے رائی پور سے مارچ2016کے روزگرفتار کرلیاگیا۔ان تمام مقدمات او رمجرمانہ سرگرمیو ں کے باوجود آسارام کے دوکروڑ سے زیادہ ماننے والے ہیں۔ اس کی ذاتی جائیداد اربوں روپئے کی ہے۔

دنیا کے بارہ ممالک میں چارسو آشرم ‘ اور پچاس سے زائد اسکولس کے علاوہ ایک پرنٹنگ پریس اور ایورویدا یونٹ بھی اس کے پاس ہے۔جودھپور کی ایس سی ‘ ایس ٹی خصوصی عدالت نے جیل کے اندر ہی معاملے کی سنوائی کرتے ہوئے خود ساختہ سنت کو عصمت ریزی کے کیس میں مجرم قراردیتے ہوئے عمر قید کی سزاء سنائی ہے۔متاثرہ کے والد نے کہاکہ ہمیں عدلیہ پر پوری بھروسہ ہے۔

انہو ں نے جودھپور کی عدالت کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ’’ ہمیں عدلیہ پرمکمل بھروسہ ہے اور انصاف کے حصول پر مسر ت کااظہار کیا‘‘ ۔

فیصلہ آنے کے فوری بعد میڈیا کے لوگوں سے با ت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ’’ پچھلے چار ماہ سے میرے خاندان کے لوگ گھر کے باہر نہیں نکلے ہیں۔ یہ اطمینان بخش ہے کہ فیصلہ آسارام کے خلاف میں گیا ہے‘‘۔

فیصلے کے فوری بعد کانگریس پارٹی نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کیاجس میں وزیر اعظم نریندر مودی اور مجرم آسارام کے قریبی تعلقات دیکھائی گئے ہیں۔ مذکورہ ویڈیومیں نریندر مودی کو آسارام سے اشیرواد لیتے ہوئے اور ستائش کرتے ہوئے دیکھاگیاہے۔