بڑی خوشی کی بات ہے کہ راشٹرا یہ سیوم سیوک ( آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھگوت نے اعلان کیاہے کہ ان کی تنظیم ہندوستان کے اجتہاد کا جشن منانے والی جماعت ہے‘ ملک کے کسی بھی طبقے کے ساتھ انہیں اختلاف نہیں ہے۔
وہ یہاں پر راجدھانی کے وگیان بھون میں تین روز کانفرنس کے افتتاحی تقریب سے خطاب کررہے تھے‘ جس کا مطلب ہے کہ مذکورہ تنظیم بڑے پیمانے پر عوام سے جڑنے کی تیاری کررہی ہے۔
ان کی اس بات پر یقین اس لئے بھی نہیں ہوتا کیونکہ ایم ایس گولوالکر جس کو تنظیم اپنا گرو مانتی ہے ‘ نے برسرعام اس بات کا اعلان کیا تھا کہ غیر ہندو اس ملک میں دوسرے درجہ کے شہری کے طور پر ہی رہ سکتے ہیں‘ ملک ہندوؤں کا ہے۔
ا ن امکانات کو بھی مسترد کرنا بھی غلط پوگا کہ تنظیم حسب ضرورت اپنے نظریات میں تبدیلی لائی گی
۔لیکن اس طرح کی رہنماؤں کی تبدیلی تنظیموں پر اثر انداز ہوگی ایسا نہیں لگتا‘ ضروری یہ ہے کہ نئی سونچ اور نئے نظریات کو اپنے مداحوں اور تنظیم کے تمام اراکین تک پہنچانے کے متعلق سونچ وفکر ناگزیر ہے۔
تعلیمی اور تہذیبی تبدیلی کے متعلق سونچ پر توجہہ ضروری ہے جو اس کی طاقتور تنظیم بجرنگ دل کے اندر ضروری ہے۔اس تمام کے لئے مثال کے طور پر لوجہاد کے خلاف مہم پر روک اور دیکھیں کہ ملک بھر میں اجتہاد کے لئے نوجوان کس طرح جشن منائیں گے؟۔
آر ایس ایس سربراہ نے اس بات سے انکار کیاہے کہ ان کا بی جے پی کنٹرول ہے۔مگر ان کا اثر ہمیں دیکھنے کو اس لئے بھی ملتا ہے کہ بی جے پی کے زیادہ تر صدر آر ایس ایس وابستہ لوگوں کو ہی مقرر کیاگیا ہے ‘ پارٹی کے اندر کا ہر خلفشار آر ایس ایس کی مداخلت کے بعد ہی ختم ہوا ہے۔
متعدد چیف منسٹر اور وزیراعظم خود کو آر ایس ایس سے ظاہر کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں