آرمی ملازمین کی مدد گار ملازمتوں کو ترجیح دینا چاہئے۔ ورون گاندھی

ہندوستان کے مصلح دستوں کے 2.5ملین سے زائد سابق ملازمین ہیں‘ جس میں زیادہ تر نہایت تربیت یافتہ‘ حوصلہ کے حامل اور کافی پیشہ وارانہ شہری ہیں‘ جو ملک کی تعمیر میں مزید تعاون کے لئے بے چین بھی ہیں۔اس تعداد میں ہر سال 60ہزارسپاہیوں کامزید اضافہ ہورہا ہے‘اور ساتھ میں ہر سال 35سے 45کی درمیانی عمرکے لوگ شامل ہورہے ہیں۔

تاہم ان میں سے زیادہ تر لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد بہتر انداز میں ان کی قابلیت کا استفادہ نہیں اٹھائے جانے کی وجہہ سے منجمد ہورہے ہیں۔ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں محدود مدد مل رہی ہے‘ ایک سروے کے مطابق 84فیصد آرمی کے ریٹائرڈ ملازمین کو بحالی کے بعد موجودہ سہولتوں مکمل طور پر نہیں مل پاتی ہیں( سنگھ1985)۔

ٹھیک اسی طرح ایک مطالعہ سے یہ بات بھی سامنے ائی ہے کہ 82فیصد سابق فوجیوں کواہم اداروں میں بحالی کید وران کوئی تعاون نہیں مل رہا ہے( مہارجن اور سبرمانی 2014)۔زیادہ تر سرویس مین کے لئے ریٹائرمنٹ ایک ابتداء اس اصلاح کے ساتھ’’ ریٹائرمنٹ‘‘ ان کے لئے ایک غلطی ہے۔زیادہ تر فوجیوں کو اس کے بجائے سمجھوتا کے لئے غور کرنا پڑیگا۔

یہ ایک ایسا عمل بنتا جارہا ہے جس کے تحت ایک شہری کو سکیورٹی کے مقام کو چھوڑنا اس کے مستقبل کے لئے تاریک لمحہ کے طور پر ابھر رہا ہے۔ان کے سامنے گھر بچوں کی تعلیم ‘ معاعشی اور مستقل کی ملازمت کے سلسلہ وار فیصلوں کا تعین کرنا ہے۔

جبکہ زیادہ تر فوجی تیس اور چالیس سال کی عمر کے ابتداء میں ریٹائر ہوتے ہیں‘ ان تمام ذمہ داریوں کی بھرپور وظیفے کے پیسوں مکمل نہیں ہوتی۔

گھر سنبھالنے کے مسائل کی وجہہ سے ایک عام شہری کی زندگی ریٹائرمنٹ کے بعد اجیرن بن جاتی ہے۔ ون رینک ون پنشن پر بحث اب بھی جاری ہے۔

بحالی کے معاملات سماجی توجہہ کے مستحق ہیں۔